نیا این ایف سی ایوارڈ: آئی ایم ایف کی حکومت کو تکنیکی معاونت کی پیشکش
پاکستان کی معیشت میں وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم ہمیشہ ایک اہم اور حساس معاملہ رہا ہے۔ اسی مقصد کے لیے نیا این ایف سی ایوارڈ تیار کرنے پر غور جاری ہے۔ اس بار فارمولے میں نہ صرف آبادی بلکہ تعلیم، صحت، ٹیکس وصولی اور ماحولیاتی عوامل کو بھی شامل کرنے کی تجویز ہے۔
آئی ایم ایف کی تکنیکی معاونت کی پیشکش
وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حکومت پاکستان کو نیا این ایف سی ایوارڈ تیار کرنے کے عمل میں تکنیکی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔
یہ پیشکش ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے حوالے سے نئی مشاورت جاری ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے اس عمل میں تکنیکی ڈیٹا، مالیاتی ماڈلنگ، اور صوبائی مالی نظم کے حوالے سے تعاون کی پیشکش کی ہے تاکہ نیا فارمولا زمینی حقائق اور پائیدار ترقی کے اہداف سے ہم آہنگ ہو۔
وزارت خزانہ کا مؤقف
وزارتِ خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ فی الحال آئی ایم ایف کے ساتھ نیا این ایف سی ایوارڈ پر کوئی باقاعدہ مشاورت نہیں ہوئی۔ تاہم مستقبل میں اگر تکنیکی معاونت کی ضرورت محسوس کی گئی تو اس پر غور کیا جائے گا۔
ان کے مطابق، نیا فارمولا طویل المدتی قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر طے کیا جائے گا، تاکہ وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی توازن بہتر بنایا جا سکے۔
نئے فارمولے کی ممکنہ خصوصیات
ذرائع کے مطابق، مجوزہ نیا این ایف سی ایوارڈ اس لحاظ سے مختلف ہوگا کہ اس میں صرف آبادی کو بنیاد بنانے کے بجائے دیگر عناصر کو بھی وزن دیا جائے گا۔
پیش کردہ تجاویز میں درج ذیل نکات شامل ہیں:
- آبادی کا حصہ 82 فیصد سے کم کر کے دیگر عوامل کا وزن بڑھایا جائے۔
- تعلیم، صحت اور ٹیکس وصولی میں کارکردگی کو وسائل کی تقسیم کا حصہ بنایا جائے۔
- ماحولیاتی اقدامات اور پائیدار ترقی کے لیے اضافی انعامی فنڈ رکھا جائے۔
- 24 کروڑ 15 لاکھ آبادی کے تازہ اعداد و شمار کو بنیاد بنایا جائے۔
یہ تجاویز اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ نیا این ایف سی ایوارڈ صرف مالی تقسیم نہیں بلکہ ایک کارکردگی پر مبنی نظام کی طرف قدم ہوگا۔
وفاق اور صوبوں میں مشاورت کا عمل
ذرائع کے مطابق، این ایف سی کمیشن کے اجلاس کے لیے 18 نومبر کی تاریخ تجویز کی گئی ہے۔
اس اجلاس میں تمام صوبائی وزرائے خزانہ، اقتصادی ماہرین اور وزارتِ خزانہ کے اعلیٰ حکام شرکت کریں گے۔
مشاورت کا مقصد یہ ہے کہ نیا فارمولا تمام صوبوں کے لیے قابلِ قبول ہو، اور کسی صوبے کے حصے میں غیر ضروری کمی یا زیادتی نہ ہو۔
آبادی بمقابلہ کارکردگی — نیا تناسب کیا ہوگا؟
گزشتہ این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کا تناسب 82 فیصد رکھا گیا تھا، لیکن اب اس میں تبدیلی زیر غور ہے۔
ذرائع کے مطابق، نیا فارمولا اس طرح تیار کیا جا رہا ہے کہ آبادی کے ساتھ ساتھ صوبوں کی مالی کارکردگی، ٹیکس کلیکشن، اور سماجی شعبوں میں بہتری کو بھی مدنظر رکھا جائے۔
یہ فارمولا صرف مالی تقسیم کا نہیں بلکہ ملکی ترقی کے ایک نئے ماڈل کی بنیاد ثابت ہو سکتا ہے۔
صوبوں کے خدشات اور تجاویز
کئی صوبے خصوصاً بلوچستان اور خیبرپختونخوا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر آبادی کی شرح کم کی گئی تو ان کے وسائل میں کمی آسکتی ہے۔
دوسری طرف، پنجاب اور سندھ چاہتے ہیں کہ نیا این ایف سی ایوارڈ میں تعلیم و صحت کے معیار کو زیادہ وزن دیا جائے تاکہ بہتر کارکردگی کو مالی فائدہ حاصل ہو۔
یہ توازن ہی دراصل نئے ایوارڈ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔
آئی ایم ایف کا کردار — محدود یا اثرانداز؟
ماہرین کے مطابق، اگرچہ آئی ایم ایف نے صرف تکنیکی معاونت کی پیشکش کی ہے، مگر خدشہ یہ بھی ہے کہ وہ مستقبل کے مالیاتی فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو اپنی مالی خودمختاری کے دائرے میں رہ کر ہی نیا این ایف سی ایوارڈ طے کرنا چاہیے۔
تاہم وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ تکنیکی مدد لینے کا مقصد صرف ڈیٹا اور تجزیاتی بنیادوں پر فیصلہ سازی کو بہتر بنانا ہے، نہ کہ پالیسی پر اثراندازی۔
نیا این ایف سی ایوارڈ — قومی مفاد کا تقاضا
اس وقت پاکستان کو ایک ایسے مالیاتی نظام کی ضرورت ہے جو نہ صرف وفاق اور صوبوں کے درمیان توازن قائم کرے بلکہ معیشت کے استحکام میں بھی کردار ادا کرے۔
اگر نیا این ایف سی ایوارڈ شفافیت، کارکردگی اور مساوات کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا تو یہ ملکی معیشت کے لیے ایک مضبوط قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر قسط کے اجرا میں حائل رکاوٹ ختم، رپورٹ جلد جاری ہوگی
آئی ایم ایف کی پیشکش اور وزارتِ خزانہ کی تیاری ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کا مالیاتی ڈھانچہ ایک نئے دور میں داخل ہونے والا ہے۔
اب فیصلہ حکومت اور صوبوں کے درمیان اعتماد اور مشاورت پر منحصر ہے۔
نیا این ایف سی ایوارڈ صرف مالی تقسیم نہیں — یہ پاکستان کے وفاقی نظام کی روح اور عوامی فلاح کا امتحان ہے۔










Comments 1