وفاقی آئینی عدالت ججز تقرری: اہم مرحلہ، تین ججز نے حلف اٹھا لیا
وفاقی آئینی عدالت ججز تقرری—پہلے مرحلے میں تین ججز نے حلف اٹھا لیا
وفاقی آئینی عدالت پاکستان کے عدالتی ڈھانچے میں ایک نئے اور نہایت اہم اضافے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس عدالت کا بنیادی مقصد آئینی تنازعات، آئینی تشریحات اور ایسے معاملات کا فیصلہ کرنا ہے جو براہِ راست ملکی آئین سے متعلق ہوں۔ آج اس اہم ادارے کی تکمیل میں ایک بڑا قدم اس وقت سامنے آیا جب وفاقی آئینی عدالت ججز تقرری کے پہلے مرحلے میں تین معزز ججز نے حلف اٹھا لیا۔
پہلے مرحلے میں تین ججز نے حلف اٹھایا
آج ہونے والی تقریبِ حلف برداری میں جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس عامر فاروق نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا۔
وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس امین الدین خان نے ان تینوں معزز ججز سے حلف لیا۔
تقریب میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر سمیت متعدد اہم قانونی شخصیات نے شرکت کی۔
یہ حلف اس بات کا اعلان ہے کہ وفاقی آئینی عدالت باقاعدہ اپنے فعال سفر کا آغاز کر رہی ہے اور ملکی آئینی ڈھانچے میں ایک نئی جہت شامل ہو رہی ہے۔
وزارتِ قانون کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری
وفاقی آئینی عدالت کے کل 6 ججز ہوں گے۔
وزارتِ قانون کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن میں جن ججز کے نام شامل ہیں ان میں:
- جسٹس حسن اظہر رضوی
- جسٹس عامر فاروق
- جسٹس علی باقر نجفی
- جسٹس کے کے آغا
- بلوچستان سے جسٹس روزی خان
- پشاور ہائی کورٹ سے جسٹس ارشد حسین شاہ
نوٹیفکیشن کے بعد وفاقی آئینی عدالت ججز تقرری کا عمل باضابطہ طور پر شروع ہو چکا ہے، اور باقی تین ججز جلد اپنے عہدوں کا حلف اٹھائیں گے۔
وفاقی آئینی عدالت کا قیام کیوں ضروری تھا؟
پاکستان میں طویل عرصے سے یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ آئینی نوعیت کے کیسز کے لیے ایک الگ عدالت قائم کی جائے۔
سپریم کورٹ میں معمول کے کیسز کی بھرمار کی وجہ سے آئینی مقدمات طویل عرصے تک زیرِ التوا رہتے تھے۔
ایسی صورت میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام نہ صرف عدالتی بوجھ کم کرے گا بلکہ آئینی تشریح و فیصلوں کو تیز اور واضح بھی بنائے گا۔
یہ عدالت براہ راست عوامی مفاد کے آئینی کیسز، صوبائی و وفاقی تنازعات، آئینی ترامیم کی تشریح اور آئین کے آرٹیکلز سے متعلق درخواستوں کا فیصلہ کرے گی۔
ججز کے استعفے اور نیا عدالتی منظرنامہ
حیران کن طور پر آئینی عدالت کے قیام کے فوراً بعد سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔

ذرائع کے مطابق وہ 27ویں آئینی ترمیم پر اپنے تحفظات رکھتے تھے، جس کے نتیجے میں استعفے سامنے آئے۔
ان استعفوں کے بعد ملک میں عدالتی نظام سے متعلق نئی بحث نے جنم لیا ہے، تاہم حکومت مؤقف اختیار کرتی ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام آئین کے مطابق اور عوامی ضرورت کے تحت ہے۔
وفاقی آئینی عدالت ججز تقرری کا عمل: اہم سنگِ میل
اس وقت تین ججز نے حلف اٹھایا ہے جبکہ مزید تین اپنی ذمہ داریاں جلد سنبھالیں گے۔
یوں چھ رکنی عدالت مکمل ہو جائے گی۔
وفاقی آئینی عدالت ججز تقرری کے عمل کو ملک کی عدالتی تاریخ کے بڑے فیصلوں میں شمار کیا جارہا ہے کیونکہ اس کے بعد آئینی معاملات کا فیصلہ زیادہ مؤثر، شفاف اور جلدی ممکن ہوگا۔
آئینی تاریخ میں نیا اضافہ
پاکستان کے عدالتی ڈھانچے میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک علیحدہ عدالت صرف آئین کے معاملات دیکھنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔
یہ عدالتی اصلاحات کا ایک بڑا قدم ہے جو مستقبل میں عوام کے فائدے کا باعث بن سکتا ہے۔
عوامی نمائندوں اور قانونی ماہرین نے اس عدالتی ادارے کو "مستقبل کی آئینی سمت کا اہم ستون” قرار دیا ہے۔
وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس امین الدین نے حلف اٹھالیا
وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور وفاقی آئینی عدالت ججز تقرری کے عمل نے ملک کے عدالتی نظام میں نئی بنیادیں رکھ دی ہیں۔
ججز کے حلف اٹھانے کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ آئینی مقدمات کو غیر معمولی اہمیت کے ساتھ دیکھا جائے گا اور عدالتی تاخیر میں کمی آئے گی۔
یہ ترقی پاکستان کے آئینی ڈھانچے کو ایک نئی سمت دے گی اور عوام کا عدلیہ پر اعتماد مزید مضبوط ہو سکتا ہے۔










Comments 1