مسلم لیگ (ن) کا اے پی سی میں شرکت کا فیصلہ
وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اے این پی کی کل جماعتی کانفرنس کے لیے پارٹی وفد نامزد، قومی اتفاق رائے کی نئی کوشش
اسلام آباد: ملک کو درپیش سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی چیلنجز کے تناظر میں قومی اتفاق رائے کی کوششوں کو فروغ دیتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی جانب سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) میں شرکت کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندہ وفد کو نامزد کر دیا ہے۔ اے پی سی کا انعقاد آج اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں ہو رہا ہے، جس میں تمام اہم سیاسی جماعتوں کو دعوت دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق، وزیراعظم نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کے لیے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان صدیقی اور وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو ذمہ داری سونپی ہے۔ یہ وفد پارٹی قیادت کا نقطہ نظر پیش کرے گا اور سیاسی مفاہمت، جمہوری استحکام اور قومی سلامتی سے متعلق معاملات پر دیگر جماعتوں سے تبادلہ خیال کرے گا۔
قومی سطح پر سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت
ملک اس وقت جن مسائل کا سامنا کر رہا ہے، ان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، داخلی و خارجی سیکیورٹی خدشات، اور جمہوریت کو لاحق خطرات شامل ہیں۔ ان حالات میں سیاسی جماعتوں کے درمیان قومی سطح پر مکالمے، مفاہمت اور اتحاد کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے بلائی گئی یہ کل جماعتی کانفرنس اسی مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے منعقد کی جا رہی ہے۔
یہ کانفرنس صرف ایک رسمی اجلاس نہیں بلکہ ایک اہم سیاسی پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے مختلف جماعتیں نہ صرف اپنی تشویشات کا اظہار کر سکیں گی بلکہ قومی معاملات پر مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی طرف بھی پیش رفت ممکن ہو گی۔
مسلم لیگ (ن) کی پالیسی: مفاہمت، استحکام اور عوامی ترجیحات
وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ سیاسی استحکام، معیشت کی بہتری اور جمہوریت کی مضبوطی صرف باہمی مشاورت، قومی مکالمے اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
اسی تناظر میں وزیراعظم نے پارٹی کی نمائندگی کے لیے ایسے افراد کا انتخاب کیا ہے جو نہ صرف سیاسی فہم و فراست رکھتے ہیں بلکہ مکالمے کی روایت کو بھی فروغ دینے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
سینیٹر عرفان صدیقی: تدبر اور سیاسی بصیرت کے حامل نمائندہ
سینیٹر عرفان صدیقی ایک ممتاز صحافی، ادیب اور سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ پارلیمانی امور میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ ماضی میں بطور وزیراعظم کے مشیر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں اور قانون سازی کے عمل میں ان کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ ان کی موجودگی یقینی بنائے گی کہ مسلم لیگ (ن) کا مؤقف واضح اور باوقار انداز میں پیش کیا جائے۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری: سیاسی ہم آہنگی کے علمبردار
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اسلام آباد سے منتخب ہونے والے تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ وہ پارلیمانی معاملات میں گہری بصیرت اور قومی سطح پر جماعتوں کے درمیان مفاہمت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بطور وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور، وہ نہ صرف قانون سازی بلکہ سیاسی مذاکرات میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے آئے ہیں۔
اے این پی کی کل جماعتی کانفرنس: پس منظر اور اہمیت
عوامی نیشنل پارٹی نے حالیہ سیاسی اور سیکیورٹی حالات کے تناظر میں تمام اہم سیاسی جماعتوں کو مدعو کرتے ہوئے اے پی سی بلائی ہے تاکہ ملک کو درپیش چیلنجز کا متحد ہو کر سامنا کیا جا سکے۔ یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہے جب بلوچستان اور خیبر پختونخوا جیسے صوبوں میں امن و امان کی صورتحال ایک بار پھر تشویشناک رخ اختیار کر چکی ہے، جبکہ معیشت بھی دباؤ کا شکار ہے۔
اے این پی کی قیادت کی جانب سے یہ قدم قومی مفادات کے تحفظ اور جمہوریت کی بقاء کی علامت کے طور پر لیا جا رہا ہے، جس میں تمام سیاسی قوتوں کو ایک صفحے پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
قومی ایجنڈا اور مشترکہ اعلامیہ کی توقع
ذرائع کے مطابق، کانفرنس کے دوران جن اہم امور پر گفتگو متوقع ہے، ان میں شامل ہیں:
- سیکیورٹی صورتحال بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی کی حالیہ لہر
- معیشت کی بحالی کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت
- آئندہ عام انتخابات کے شفاف اور بروقت انعقاد کے لیے انتخابی اصلاحات
- جمہوری اداروں کی خودمختاری اور عدلیہ و پارلیمان کے تعلقات
بین الصوبائی ہم آہنگی اور وفاقی نظام کی مضبوطی
امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا، جو تمام جماعتوں کے متفقہ نکات پر مشتمل ہو گا۔ یہ اعلامیہ نہ صرف عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کا باعث بنے گا بلکہ ملکی و بین الاقوامی سطح پر یہ پیغام بھی دے گا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اہم قومی معاملات پر متحد ہو سکتی ہے۔
شہباز شریف کی سیاسی حکمت عملی: اختلاف کے باوجود اتفاق
وزیراعظم شہباز شریف کا انداز سیاست ہمیشہ مفاہمت، شراکت داری اور قومی مفادات کو اولیت دینے پر مبنی رہا ہے۔ انہوں نے گزشتہ دورِ حکومت میں بھی کئی بار اپوزیشن جماعتوں سے رابطے کیے اور سیاسی افہام و تفہیم کی فضا قائم رکھنے کی کوشش کی۔
ان کی جانب سے اے این پی کی کانفرنس میں شرکت کے لیے وفد کی نامزدگی اس امر کا ثبوت ہے کہ مسلم لیگ (ن) تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتی ہے، چاہے سیاسی نظریات مختلف کیوں نہ ہوں۔
اپوزیشن جماعتوں کی شمولیت اور رویہ
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ آیا پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) اور دیگر جماعتیں اس اے پی سی میں بھرپور شرکت کریں گی یا نہیں۔ بعض حلقوں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر اپوزیشن کی بڑی جماعتیں کانفرنس میں شریک نہ ہوئیں تو یہ ایک بڑا موقع ضائع ہو سکتا ہے۔
تاہم، جو جماعتیں شریک ہو رہی ہیں، وہ اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ حالات میں قومی یکجہتی اور ہم آہنگی از حد ضروری ہے۔
قومی یکجہتی کی جانب ایک مثبت قدم
عوامی نیشنل پارٹی کی کل جماعتی کانفرنس اور اس میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے وفد کی نامزدگی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک مثبت اور بالغ نظری کا مظہر ہے۔ یہ اس امر کی علامت ہے کہ اختلافات کے باوجود ملکی سلامتی، جمہوریت کی بقاء، اور معاشی بہتری کے لیے سیاسی قیادت ایک دوسرے سے مکالمہ کرنے کو تیار ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی شرکت اور فعال نمائندگی نہ صرف اس کی جمہوریت پسندی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ سیاسی استحکام، معاشی ترقی اور قومی سلامتی صرف اس وقت ممکن ہے جب تمام جماعتیں ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی ایجنڈے پر متحد ہوں۔
READ MORE FAQs
اے این پی کل جماعتی کانفرنس کہاں ہو رہی ہے؟
اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کن رہنماؤں کو نامزد کیا ہے؟
سینیٹر عرفان صدیقی اور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری۔
کل جماعتی کانفرنس کا مقصد کیا ہے؟
قومی مسائل پر اتفاق رائے اور سیاسی کشیدگی کا خاتمہ۔

