سانحہ نو مئی عدالت کا فیصلہ: شاہ محمود بری، یاسمین راشد اور دیگر کو سزائیں
سانحہ نو مئی عدالت کا فیصلہ اور اس کی اہمیت
پاکستان کی سیاست میں سانحہ نو مئی ایک ایسا باب ہے جس نے ملکی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے۔ عدالت نے حالیہ دنوں میں سانحہ نو مئی عدالت کا فیصلہ سناتے ہوئے کئی اہم رہنماؤں کو سزائیں دیں اور کچھ کو بری کر دیا۔ یہ فیصلہ ملکی سیاست، عدالتی نظام اور عوامی رائے عامہ پر براہ راست اثر انداز ہوگا۔
مقدمہ کی تفصیلات
انسدادِ دہشتگردی عدالت کے ایڈمن جج منظر علی گل نے کوٹ لکھپت جیل میں مقدمہ نمبر 109/23 کا فیصلہ سنایا۔ اس مقدمے میں سانحہ نو مئی کے دوران لاہور میں ہونے والے واقعات پر کارروائی کی گئی تھی۔ 47 گواہان نے عدالت میں شہادتیں ریکارڈ کرائیں، جنہیں عدالت نے مدنظر رکھتے ہوئے سانحہ نو مئی عدالت کا فیصلہ سنایا۔
شاہ محمود قریشی کی بریت
سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس مقدمے سے بری قرار دیے گئے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ان کے خلاف پیش کیے گئے شواہد ناکافی ہیں۔ یہ بریت پی ٹی آئی کے لیے کسی حد تک ریلیف کا باعث بنی، کیونکہ شاہ محمود کو پارٹی میں اہم مقام حاصل ہے۔ سانحہ نو مئی عدالت کا فیصلہ (Court’s decision on the May 9 tragedy) ان کے لیے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یاسمین راشد اور دیگر رہنماؤں کو سزائیں
عدالت نے ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، میاں محمود الرشید اور عمر سرفراز چیمہ کو دس دس سال قید کی سزا سنائی۔ اس کے علاوہ خدیجہ شاہ کو پانچ سال قید کی سزا دی گئی۔ ان سزاؤں نے یہ واضح کیا کہ عدالت نے سانحہ نو مئی عدالت کا فیصلہ سناتے وقت سخت رویہ اختیار کیا ہے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
بری ہونے والے ملزمان
مقدمے میں کچھ رہنماؤں اور کارکنوں کو بری بھی کیا گیا۔ عدالت نے افشاں طارق، روبینہ جمیل اور 21 دیگر ملزمان کو شک و شبہات کی بنیاد پر بری کر دیا۔ اس فیصلے نے یہ ظاہر کیا کہ عدالت نے ہر ملزم کے خلاف ثبوتوں کو الگ الگ پرکھا اور سانحہ نو مئی عدالت کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق سنایا۔
اشتہاری ملزمان اور صنم جاوید کا معاملہ
صنم جاوید سمیت 12 ملزمان کو عدالت نے اشتہاری قرار دے رکھا ہے۔ ان افراد کی گرفتاری کے لیے مزید کارروائیاں جاری ہیں۔ سانحہ نو مئی عدالت کا فیصلہ اس بات کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ غیر حاضر رہنے والے ملزمان کے لیے قانون کسی قسم کی رعایت نہیں دیتا۔
عوامی ردعمل
سانحہ نو مئی عدالت کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد عوامی ردعمل ملا جلا رہا۔ کچھ حلقے اسے انصاف کی فتح قرار دے رہے ہیں جبکہ کچھ افراد کا ماننا ہے کہ فیصلے میں سیاسی انتقام کی جھلک موجود ہے۔ عوامی رائے تقسیم ہونے کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ یہ فیصلہ ملکی تاریخ میں اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
سیاسی اثرات
یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ شاہ محمود قریشی کی بریت کے باوجود یاسمین راشد اور دیگر اہم رہنماؤں کو دی جانے والی سزائیں پارٹی کے لیے بڑا نقصان ہیں۔ سانحہ نو مئی عدالت کا فیصلہ پارٹی کی سیاسی حکمت عملی کو براہ راست متاثر کرے گا۔
قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کے مطابق، سانحہ نو مئی عدالت کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شواہد کی بنیاد پر ملزمان کو سزا یا بری کرنا عدالتی عمل کا حصہ ہے۔ البتہ یہ فیصلہ آنے والے دنوں میں اپیلوں کے مرحلے سے بھی گزرے گا۔
مستقبل کی سمت
سانحہ نو مئی عدالت کا فیصلہ محض ایک مقدمے کا فیصلہ نہیں بلکہ ایک مثال ہے کہ ملک میں قانون اور انصاف کی بالادستی قائم کرنے کے لیے عدالتیں کس طرح فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ مستقبل میں اس فیصلے کے اثرات پاکستانی سیاست اور عوامی رویوں پر طویل عرصے تک دیکھے جائیں گے۔
سانحہ 9 مئی کیس میں اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد بچھر سمیت 36 ملزمان کو 10،10 سال قید
