پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ — خطے میں نئی سمت یا پرانی روایت کی توثیق – یہ اسٹریٹیجک اتحاد کسی تیسرے کے خلاف نہیں ، دفتر خارجہ
اسلام آباد (رئیس الاخبار):- پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان رواں ہفتے طے پانے والا اسٹریٹجک باہمی پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ خطے میں سیاسی و عسکری توازن کے حوالے سے ایک نہایت اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے دیرینہ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو نئی جہت دیتا ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ اسلام آباد اور ریاض خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک دوسرے کے سب سے بڑے شراکت دار ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے اسلام آباد میں ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ:
’’پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا یہ دفاعی معاہدہ مکمل طور پر اسٹریٹجک اور باہمی نوعیت کا ہے، اس کا مقصد کسی تیسرے ملک کو نشانہ بنانا یا دھمکانا ہرگز نہیں ہے۔‘‘
ان کے مطابق اسلام آباد اور ریاض کے تعلقات کی بنیاد ہمیشہ سے دفاعی تعاون رہی ہے، اورپاکستان سعودی دفاعی معاہدہ اس دہائیوں پرانے تعاون کو ایک باضابطہ اور مضبوط شکل دیتا ہے۔
نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کا ردعمل
لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ:
’’پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ کسی ایک رات میں طے نہیں پایا، بلکہ کئی ماہ کی مشاورت اور مذاکرات کا نتیجہ ہے۔‘‘
’’پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان پہلے سے دفاعی تعاون موجود تھا، پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ نے اس شراکت داری کو مزید واضح اور پائیدار کر دیا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ چاہے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہو یا آئی ایم ایف پیکج کی شرائط، سعودی حکومت نے پاکستان کو ہر ممکن سہولت فراہم کی ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا مؤقف
اس سے قبل 18 ستمبر کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ:
’’پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ دفاعی نوعیت کا ہے اور اس کا مقصد دونوں ممالک کی سرحدوں اور سلامتی کو مزید مضبوط بنانا ہے۔‘‘
’’اگر کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت کی گئی تو اسے دونوں ممالک کے خلاف تصور کیا جائے گا۔‘‘
وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ملاقات
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات میں پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ پر دستخط کیے۔ ریاض میں ہونے والی اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا:
’’پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ دونوں ممالک کی اپنی سلامتی کو بڑھانے اور خطے میں امن کے فروغ کے لیے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے۔‘‘
’’اس کا بنیادی مقصد دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی بھی بیرونی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع کو یقینی بنانا ہے۔‘‘
ایک ملک پر حملہ دونوں پر تصور،پاکستان سعودیہ دفاعی معاہدے سے بھارت میں تشویش کی لہر، ردِ عمل بھی آگیا
پاک–سعودیہ تعلقات کی تاریخی جھلکیاں
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات سات دہائیوں پر محیط ہیں۔
1960 کی دہائی سے دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کی بنیاد رکھی گئی۔
پاکستان نے سعودی افواج کو تربیت فراہم کی، جب کہ سعودی عرب نے پاکستان کو معاشی اور مالی مشکلات میں ہمیشہ سہارا دیا۔
1970 کی دہائی میں تیل بحران کے دوران پاکستان کو رعایتی نرخوں پر سعودی تیل ملا۔
1980 کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران دونوں ممالک نے مل کر اس خطے میں بڑی سیاسی و عسکری حکمت عملی ترتیب دی۔
زلزلہ 2005 اور سیلاب 2010 میں سعودی عرب پاکستان کا سب سے بڑا مالی مددگار رہا۔

موجودہ حالات میں معاہدے کی اہمیت
خطے کی موجودہ صورتحال — خاص طور پر یمن تنازعہ، ایران–سعودیہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ، خلیجی ریاستوں کے اندرونی اختلافات — کے تناظر میں یہ معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب کے لیے ایک تحفظی ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستانی دفاعی ماہرین کے مطابق:
پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ سے دونوں ممالک کی عسکری تیاریوں میں مزید ہم آہنگی آئے گی۔
پاکستان کی دفاعی صنعت (جیسے JF-17 تھنڈر، میزائل ٹیکنالوجی، ٹریننگ پروگرامز) سعودی عرب کے لیے نئی راہیں کھولے گی۔
سعودی عرب کی جدید ٹیکنالوجی اور مالی وسائل پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے۔
بین الاقوامی تناظر
عالمی ماہرین کے مطابق پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ صرف پاکستان اور سعودی عرب تک محدود نہیں، بلکہ یہ دنیا کے بڑے طاقتور ممالک کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ:
پاکستان اور سعودی عرب خطے میں اپنی خودمختار پالیسی اختیار کر رہے ہیں۔
پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ امریکہ، چین اور روس جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔
خلیجی خطے میں بڑھتے ہوئے اقتصادی منصوبے (جیسے NEOM سٹی اور گوادر پورٹ) کو اس معاہدے کے تحت دفاعی تحفظ ملے گا۔
ممکنہ چیلنجز
اگرچہ یہ معاہدہ تاریخی نوعیت کا ہے، مگر اس کے ساتھ چند خدشات بھی وابستہ ہیں:
ہندوستان اور ایران پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ کو کس نظر سے دیکھیں گے؟
کیا یہ معاہدہ یمن یا دیگر خلیجی تنازعات میں پاکستان کو براہِ راست ملوث کر سکتا ہے؟
پاکستان کی داخلی معاشی مشکلات کے پیش نظر، کیا یہ شراکت داری مالی بوجھ بڑھا سکتی ہے؟

مستقبل کے امکانات
پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ(pak saudi defense agreement) کے تحت دونوں ممالک مشترکہ فوجی مشقیں اور انسداد دہشت گردی آپریشنز میں تعاون بڑھا سکتے ہیں۔ دفاعی پیداوار اور ہتھیاروں کی مشترکہ تیاری کے منصوبے بھی ممکن ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں دفاعی سرمایہ کاری (ایئر بیسز اور تربیتی مراکز) قائم کیے جانے کا امکان ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والا یہ معاہدہ دونوں ممالک کے دیرینہ دوستانہ تعلقات کی تجدید ہے۔ یہ نہ صرف دفاعی تعاون کو ایک نئی جہت دیتا ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام کے فروغ کے لیے بھی ایک اہم سنگ میل ہے۔ تاہم عالمی سیاست اور خطے کی حساس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ معاہدہ آئندہ برسوں میں کئی امتحانات سے گزرے گا۔
🔴LIVE: Spokesperson's Weekly Press Briefing 19-09-2025 at Ministry of Foreign Affairs, Islamabad https://t.co/WaO2vzMyf1
— Ministry of Foreign Affairs - Pakistan (@ForeignOfficePk) September 19, 2025
READ MORE FAQS
سوال 1: پاکستان اور سعودی عرب کے اس دفاعی معاہدے کی اہم شقیں کیا ہیں؟
جواب: معاہدے کے تحت دونوں ممالک بیرونی جارحیت کو مشترکہ خطرہ سمجھیں گے، دفاعی تعاون کو فروغ دیں گے اور خطے میں امن کے قیام کے لیے مشترکہ اقدامات کریں گے۔
سوال 2: دفتر خارجہ نے اس معاہدے کے حوالے سے کیا وضاحت دی ہے؟
جواب: دفتر خارجہ کے مطابق یہ معاہدہ مکمل طور پر اسٹریٹجک اور باہمی نوعیت کا ہے اور کسی تیسرے ملک کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں ہے۔
سوال 3: بھارت نے اس معاہدے پر کیا ردعمل دیا ہے؟
جواب: بھارت نے کہا ہے کہ وہ معاہدے کے ممکنہ اثرات کا باریک بینی سے جائزہ لے گا اور قومی مفادات کے تحفظ کے لیے حکمت عملی اپنائے گا۔
سوال 4: یہ معاہدہ خطے کی سیاست پر کس طرح اثر ڈال سکتا ہے؟
جواب: ماہرین کے مطابق یہ معاہدہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو بدل سکتا ہے اور ایران سمیت دیگر علاقائی ممالک اس پر گہری نظر رکھیں گے۔









