آزاد کشمیر میں حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان معاہدہ طے، تمام سڑکیں کھل گئیں
مظفرآباد: آزاد کشمیر میں کئی دنوں سے جاری کشیدگی اور عوامی احتجاج کا بالآخر پرامن اختتام ہوا ہے۔ پاکستان حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد ایک اہم معاہدے کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ پیش رفت نہ صرف خطے کے لیے سیاسی استحکام کا باعث بنی ہے، بلکہ جمہوری عمل، گفت و شنید، اور عوامی شمولیت کی ایک مثال بھی قائم کر گئی ہے۔
پریس کانفرنس میں معاہدے کا اعلان
وزیراعظم کے مشیر اور مذاکراتی ٹیم کے رکن رانا ثناء اللہ نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا:
"یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا ہے اور عوامی ایکشن کمیٹی کے تمام جائز مطالبات تسلیم کیے جا چکے ہیں۔”
انہوں نے بتایا کہ ایک لیگل ایکشن کمیٹی قائم کی گئی ہے جو ہر 15 دن بعد ملاقات کر کے معاہدے پر عملدرآمد کا جائزہ لے گی۔
معاہدے کے اہم نکات
حکومت اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے نمایاں نکات درج ذیل ہیں:
- 1 اور 2 اکتوبر کو جاں بحق افراد کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے گا۔
- پرتشدد واقعات میں جاں بحق ہونے والوں پر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوں گے۔
- تمام سڑکیں کھول دی گئی ہیں اور مظاہرین پرامن طور پر گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔
- لیگل ایکشن کمیٹی ہر دو ہفتے بعد ملاقات کرے گی تاکہ آئندہ شکایات کا بروقت حل ممکن ہو۔
اہم سیاسی شخصیات کے ردعمل
رانا ثناء اللہ (وزیراعظم کے مشیر)
"یہ امن اور مکالمے کی جیت ہے۔ عوام کے جائز مطالبات پر سنجیدگی سے عمل کیا گیا۔”
راجہ پرویز اشرف (پیپلز پارٹی)
"کچھ لوگ معاملے کو بگاڑنا چاہتے تھے، مگر ان کے منصوبے ناکام ہو گئے۔ کشمیر میں امن قائم رکھنا سب کی ذمہ داری ہے۔”
احسن اقبال (وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی)
"نہ تشدد ہوا، نہ تقسیم۔ یہ پاکستان، آزاد کشمیر اور جمہوریت کی جیت ہے۔ ہم نے انا کے بجائے مشاورت کو ترجیح دی۔”
طارق فضل چودھری (وفاقی وزیر)
"معاہدہ امن کی فتح ہے۔ مظاہرین گھروں کو واپس جا رہے ہیں اور حالات معمول پر آ چکے ہیں۔”
وزیراعظم شہباز شریف کی براہ راست نگرانی
وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر کی کشیدہ صورتحال پر براہ راست مذاکرات کی نگرانی کی اور ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جس میں شامل تھے:
- رانا ثناء اللہ
- احسن اقبال
- طارق فضل چودھری
- سردار یوسف
- امیر مقام
- راجہ پرویز اشرف
- قمر زمان کائرہ
یہ کمیٹی مظفرآباد پہنچی اور مقامی قیادت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیے، جس کے بعد حتمی معاہدہ طے پایا۔
آزاد کشمیر میں احتجاج کی وجوہات
احتجاج کے پیچھے اہم عوامی مسائل شامل تھے:
- بجلی کی قیمتوں میں اضافہ
- مہنگائی
- روزگار کے مواقع کی کمی
- بنیادی سہولیات کا فقدان
عوامی ایکشن کمیٹی نے ان مسائل پر توجہ دلاتے ہوئے پُرامن احتجاج کا راستہ اپنایا، جو کہ جمہوری معاشرے کی نشانی ہے۔
معاہدے کا اثر: اعتماد اور حکمرانی کی بحالی
یہ معاہدہ آزاد کشمیر میں عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کی بحالی کا نقطہ آغاز ہے۔ حکومت نے واضح کیا ہے کہ:
- عوام کی آواز کو سنا جائے گا
- مستقبل میں کسی مسئلے پر احتجاج کے بجائے قانونی کمیٹی سے رجوع کیا جا سکتا ہے
- ترقیاتی کاموں میں عوامی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا
مستقبل کا لائحہ عمل
- لیگل ایکشن کمیٹی کا مستقل کردار
- فلاحی پیکجز کا اعلان متوقع
- آزاد کشمیر میں ترقیاتی اسکیمز پر توجہ
- نوجوانوں کے لیے روزگار پروگرام
جمہوریت کی فتح، امن کی بحالی
آزاد کشمیر میں حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان طے پانے والا معاہدہ پاکستانی جمہوریت کے استحکام اور عوامی شراکت داری کی فتح ہے۔ یہ واضح پیغام ہے کہ جب عوامی مطالبات کو سنجیدگی سے سنا جائے، اور سیاسی قیادت میں بصیرت ہو، تو مسائل کا حل پرامن اور بامقصد نکلتا ہے۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ معاہدہ آزاد کشمیر کے مسائل کا پائیدار حل ہے؟