آزاد کشمیر حکومت مذاکرات کے لیے وزیراعظم کی اپیل، کمیٹی کے اراکین میں توسیع
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے آزاد جموں و کشمیر میں جاری حالیہ مظاہروں اور عوامی بے چینی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صورتحال کا سخت نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر عوام سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ پُرامن رہیں، احتجاج کے جمہوری حق کو آئینی دائرے میں استعمال کریں اور امن و امان کی صورتحال کو بگڑنے نہ دیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ:
"پرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی و جمہوری حق ہے، مگر عوام الناس اور املاک کو نقصان پہنچانا کسی طور قابلِ قبول نہیں۔”
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستی ادارے مظاہرین کے جذبات کا احترام کریں اور کسی بھی قسم کی غیر ضروری سختی یا طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے۔
امن کے قیام کے لیے حکومتی اقدامات
وزیر اعظم شہباز شریف نے متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خصوصی ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ مظاہرین کے ساتھ تحمل، بردباری اور نرم رویے کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کا کہا ہے کہ کوئی بھی اقدام عوام کے آئینی حقوق کو سلب کرنے کا باعث نہ بنے۔
وزیر اعظم نے آزاد کشمیر میں مظاہروں کے دوران پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات پر نہ صرف افسوس کا اظہار کیا بلکہ ان واقعات کی شفاف تحقیقات کا بھی حکم جاری کر دیا ہے۔ انہوں نے واقعے سے متاثرہ خاندانوں کو فوری امداد پہنچانے اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے بھی واضح احکامات دیے ہیں۔
مسئلے کے پرامن حل کے لیے مذاکراتی کمیٹی میں توسیع
صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک اہم پیش رفت کے طور پر موجودہ مذاکراتی کمیٹی میں مزید سینئر اور بااثر شخصیات کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ مسئلے کا پائیدار اور قابل قبول حل نکالا جا سکے۔
نئی مذاکراتی کمیٹی میں شامل اہم اراکین درج ذیل ہیں:
- سینیٹر رانا ثنا اللہ
- وفاقی وزیر سردار محمد یوسف
- وفاقی وزیر احسن اقبال
- سابق صدر آزاد جموں و کشمیر مسعود خان
- مشیر امور کشمیر قمر زمان کائرہ
وزیر اعظم نے کمیٹی کو فوری طور پر مظفرآباد روانہ ہونے کی ہدایت کی ہے تاکہ وہ زمینی حقائق کا جائزہ لے، مظاہرین کے نمائندوں سے بات چیت کرے اور حالات کو معمول پر لانے کے لیے فوری اور عملی اقدامات تجویز کرے۔
مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل اولین ترجیح
وزیر اعظم شہباز شریف نے واضح کیا کہ حکومت پاکستان کشمیری عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ہر وقت تیار ہے اور ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان کے بقول، "ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیری عوام کے معاشی، سماجی اور بنیادی حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اور ان کے جائز مطالبات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔”
انہوں نے اپیل کی کہ ایکشن کمیٹی اور دیگر عوامی نمائندے مذاکراتی عمل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور حکومتی کمیٹی سے بھرپور تعاون کریں تاکہ کوئی درمیانی راستہ نکالا جا سکے۔
عوامی مشکلات کا فوری تدارک
وزیر اعظم نے مظاہرین سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنے احتجاج کو پرامن رکھیں، ریاستی املاک یا کسی بھی قسم کے تشدد سے گریز کریں اور عوام کی جان و مال کو نقصان پہنچانے سے بچیں۔ ان کے مطابق، "ایسے اقدامات نہ صرف مسئلے کو پیچیدہ بناتے ہیں بلکہ عوامی ہمدردی کو بھی متاثر کرتے ہیں۔”
انہوں نے یقین دلایا کہ عوامی مسائل کے حل میں تاخیر نہیں کی جائے گی، اور مذاکراتی کمیٹی اپنی سفارشات بلا تاخیر وزیر اعظم آفس کو بھجوائے گی تاکہ فیصلے فوری طور پر عملدرآمد کے مراحل میں داخل ہو سکیں۔
وزیر اعظم کی وطن واپسی پر ذاتی نگرانی کا اعلان
وزیر اعظم نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ اپنی وطن واپسی پر اس سارے عمل کی خود نگرانی کریں گے اور براہ راست پیش رفت کا جائزہ لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ "میں ذاتی طور پر اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے پرعزم ہوں، اور کوئی بھی قدم عوام کی بھلائی کے خلاف نہیں اٹھایا جائے گا۔”
انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ موجودہ حکومت کشمیری عوام کے ساتھ ہے اور ان کی بہتری کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے، چاہے وہ معاشی پیکیج ہوں، روزگار کے مواقع یا دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا حالیہ بیان اور اقدامات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت آزاد کشمیر کی صورتحال کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور پرامن، سیاسی و عوامی حل کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں عوامی تعاون اور اپوزیشن جماعتوں کی سنجیدگی ہی وہ عوامل ہیں جو اس بحران کو جلد از جلد ختم کر سکتے ہیں۔
آزادی اظہار، آئینی حقوق، اور جمہوری طریقہ احتجاج ہر شہری کا حق ہے، لیکن یہ اسی وقت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جب اسے امن، تحمل اور مکالمے کے ساتھ جوڑا جائے۔ حکومت اور عوام کے درمیان مفاہمت کی یہی فضا پاکستان اور آزاد کشمیر کے روشن مستقبل کی ضامن بن سکتی ہے۔

Comments 1