آزاد کشمیر کی سیاست ایک بار پھر گرم ہوگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی نے آزاد کشمیر میں حکومت سازی کے لیے بھرپور سیاسی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے اس حوالے سے مشاورت کی اور حکومت بنانے کے فیصلے پر اعتماد میں لیا۔
سیاسی پس منظر اور زرداری کا کردار
ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف کو یقین دلایا کہ آزاد کشمیر میں ایک مستحکم حکومت بنانا ملک کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر دونوں بڑی جماعتیں—پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)—مل کر کام کریں تو آزاد کشمیر کی سیاسی صورتحال میں بہتری آسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ خطے کی ترقی کے لیے سیاسی استحکام کو ترجیح دی جائے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھی زرداری کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی آزاد کشمیر امور کمیٹی کو ہدایت دی کہ وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ مذاکرات کرے اور مشترکہ لائحہ عمل طے کرے تاکہ آزاد کشمیر میں حکومت سازی پر اتفاق ممکن بنایا جا سکے۔
مسلم لیگ (ن) کی کمیٹی اور اس کا کردار
ذرائع کے مطابق، مسلم لیگ (ن) کی کمیٹی میں احسن اقبال، رانا ثنااللہ، اور امیر مقام شامل ہیں۔
یہ کمیٹی پیپلزپارٹی کے ساتھ باضابطہ مذاکرات سے قبل مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے رہنماؤں سے مشاورت کر رہی ہے تاکہ کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے پارٹی موقف واضح ہو۔
کمیٹی کا بنیادی مقصد ہے کہ اگر آزاد کشمیر میں حکومت سازی کے امکانات موجود ہیں تو وہ آئینی و سیاسی طریقے سے آگے بڑھنے کی حکمتِ عملی ترتیب دے۔
فاروق حیدر کا مؤقف: اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ برقرار
دوسری جانب، مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے پارلیمانی لیڈر اور سابق وزیراعظم راجہ محمد فاروق حیدر نے واضح کیا ہے کہ ان کی جماعت حکومت سازی کے کسی عمل کا حصہ نہیں بنے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ:

“ہماری پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ ہم اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ یہ فیصلہ متفقہ ہے اور اس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں۔”
راجہ فاروق حیدر کا یہ بیان سیاسی منظرنامے میں ایک نیا موڑ پیدا کر رہا ہے۔ اگرچہ مرکزی قیادت بات چیت پر آمادہ ہے، مگر آزاد کشمیر کی مقامی قیادت سخت مؤقف رکھتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو اپوزیشن میں رہ کر عوامی مسائل پر آواز بلند کرنی چاہیے۔
پیپلزپارٹی کی حکمتِ عملی: نمبر گیم پر فوکس
پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان قائرہ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے ہمیں آزاد کشمیر میں اپوزیشن میں بیٹھنے کے فیصلے سے آگاہ نہیں کیا، تاہم اگر ہمارے نمبرز پورے ہو جاتے ہیں تو ہم حکومت بنانے کی کوشش ضرور کریں گے۔
قائرہ کے مطابق:
“ہم کسی غیرجمہوری راستے سے حکومت نہیں بنائیں گے، لیکن اگر عوامی مینڈیٹ ہمیں موقع دیتا ہے تو ہم ذمہ داری نبھائیں گے۔”
یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ پیپلزپارٹی آزاد کشمیر میں حکومت سازی کے لیے سیاسی طور پر سرگرم ہے اور دیگر اتحادی جماعتوں سے رابطے بڑھا رہی ہے۔
آزاد کشمیر میں حکومت سازی: سیاسی اتار چڑھاؤ اور چیلنجز
آزاد کشمیر کی سیاست ہمیشہ وفاقی سیاست سے جڑی رہی ہے۔ اسلام آباد میں جو پارٹی حکومت میں ہوتی ہے، عموماً مظفرآباد میں بھی اس کا اثر دیکھا جاتا ہے۔
مگر اس بار معاملہ کچھ مختلف ہے — مسلم لیگ (ن) مرکز میں اتحادی حکومت کا حصہ ہے، جبکہ آزاد کشمیر میں وہ اپوزیشن میں بیٹھنا چاہتی ہے۔
یہ صورتِ حال آزاد کشمیر میں حکومت سازی کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اتحاد ہو جاتا ہے تو وہ ایک مضبوط حکومت قائم کر سکتے ہیں، تاہم فاروق حیدر جیسے رہنماؤں کا مؤقف اتحاد کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
سیاسی ماہرین کی رائے
سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی متحرک سیاست ایک منظم حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
زرداری اپنی روایتی سیاسی چالوں کے ماہر ہیں اور وہ ہمیشہ پسِ پردہ رہ کر نتائج حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
ان کے لیے آزاد کشمیر میں حکومت سازی نہ صرف سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کا موقع ہے بلکہ مرکز میں اتحادیوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔
ن لیگ کا داخلی اختلاف
اگرچہ مرکزی سطح پر ن لیگ کی قیادت پیپلزپارٹی کے ساتھ مذاکرات کی خواہاں ہے، مگر آزاد کشمیر کی مقامی قیادت سخت مؤقف پر قائم ہے۔
پارٹی ذرائع کے مطابق، فاروق حیدر گروپ سمجھتا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی حکومت بناتی ہے تو ن لیگ کو اپوزیشن میں رہ کر عوامی حمایت حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔
یہ اختلاف آئندہ دنوں میں پارٹی کے اندر ایک نئی کشمکش پیدا کر سکتا ہے۔
عوامی ردعمل اور تجزیہ
آزاد کشمیر کے عوام اس وقت بے یقینی کا شکار ہیں۔ کچھ حلقوں میں پیپلزپارٹی کی ممکنہ حکومت کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ دیگر لوگ اسے ایک وقتی سیاسی جوڑ توڑ سمجھتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر بحث جاری ہے، جہاں لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا واقعی زرداری کا یہ اقدام خطے کے عوام کے مفاد میں ہے یا محض سیاسی طاقت بڑھانے کا حربہ؟
صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کی ملاقات، ملکی و علاقائی امور پر تفصیلی مشاورت
سیاسی منظرنامہ اس وقت غیر یقینی کا شکار ہے۔
ایک طرف پیپلزپارٹی آزاد کشمیر میں حکومت سازی کے لیے متحرک ہے، دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی اندرونی صفوں میں اختلافات بڑھ رہے ہیں۔
یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ نتیجہ کیا نکلے گا، مگر اتنا ضرور ہے کہ آنے والے ہفتے آزاد کشمیر کی سیاست میں نہایت اہم ثابت ہوں گے۔










Comments 2