یروشلم اور دوحہ میں تازہ ترین واقعات نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر کی جانے والی فضائی کارروائی، جس کا مبینہ ہدف حماس کے سیاسی اور عسکری رہنما تھے، نہ صرف خطے میں کشیدگی کو بڑھا رہی ہے بلکہ سفارتی سطح پر بھی نئے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیل نے قطر جیسے ملک کو براہِ راست اپنی کارروائی کا ہدف بنایا ہے، جہاں گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے حماس کی قیادت پناہ لیے ہوئے ہے۔
دوحہ پر اسرائیلی حملہ کی نوعیت اور ابتدائی دعوے
ذرائع کے مطابق اسرائیلی فوج کو اس بات کی تشویش ہے کہ منگل کے روز کیے گئے فضائی حملے میں حماس کا کوئی سینئر رہنما نشانہ نہیں بنا بلکہ نسبتاً جونیئر قیادت اور کارکن ہلاک ہوئے۔ حماس نے تصدیق کی کہ اس کے چھ ارکان جاں بحق ہوئے ہیں، تاہم یہ بھی کہا کہ ان میں کوئی بڑا لیڈر شامل نہیں تھا۔
امریکا میں اسرائیلی سفیر سے جب اس کارروائی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے براہِ راست جواب دینے سے گریز کیا لیکن ساتھ ہی یہ عندیہ دیا کہ اگر اس بار بڑے رہنماؤں کو نہیں مارا جا سکا تو "اگلی بار ضرور ہدف بنایا جائے گا۔” ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ قطر کے عوام پر نہیں بلکہ صرف حماس پر کیا گیا ہے۔
قطر اور حماس کا تعلق — ایک تاریخی پس منظر
2007 میں جب حماس نے غزہ کی پٹی پر مکمل کنٹرول حاصل کیا تو بیشتر عالمی طاقتوں نے اس تنظیم کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ ایسے میں قطر واحد ملک تھا جس نے حماس کو مالی امداد، سیاسی پناہ اور سفارتی سہارا فراہم کیا۔ گزشتہ 13 برسوں کے دوران قطر نہ صرف حماس کے لیے مذاکراتی پلیٹ فارم رہا بلکہ اس نے غزہ میں بحالی اور تعمیر نو کے منصوبوں میں بھی براہِ راست کردار ادا کیا۔
قطر کے خصوصی ایلچی محمد العمادی کو فلسطینی عوام اکثر "اصل گورنر” کہتے ہیں کیونکہ وہ امداد اور منصوبہ بندی پر براہِ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان ہی تعلقات کی وجہ سے قطر کو خطے میں ایک اہم ثالث کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔
اسماعیل ہنیہ اور حماس کی سینئر قیادت کے کئی ارکان نے ایران اور ترکی کے ساتھ ساتھ دوحہ کو اپنی مستقل رہائش گاہ بنایا ہوا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق تقریباً ایک ہزار کے قریب حماس کے اہلکار اور ان کے خاندان قطر میں موجود ہیں، جہاں حکومت کی جانب سے انہیں رہائش فراہم کی گئی ہے۔ ان رہائش گاہوں میں سینئر رہنماؤں کے ولاز، سیاسی ہیڈکوارٹر اور سکیورٹی اہلکاروں کے لیے الگ عمارتیں شامل ہیں۔
دوحہ پر اسرائیلی حملہ اور "محفوظ پناہ گاہ” کا تاثر
دوحہ پر اسرائیلی حملہ نے اس تصور کو توڑ دیا ہے کہ قطر حماس قیادت کے لیے محفوظ ترین مقام ہے۔ مبصرین کے مطابق اب یہ سوال شدت اختیار کر گیا ہے کہ خطے میں کوئی بھی ملک حماس کی میزبانی جاری رکھ پائے گا یا نہیں۔ قطر پر اسرائیلی میزائلوں کا گرنا صرف ایک عسکری واقعہ نہیں بلکہ ایک سنگین سفارتی چیلنج بھی ہے۔
یہ صورتحال قطر کے لیے بھی مشکل ہے کیونکہ وہ ایک طرف امریکہ اور مغربی ممالک کے قریبی اتحادیوں میں شامل ہے، دوسری طرف اس نے حماس کو سیاسی پناہ دی ہوئی ہے۔
قطر اسرائیل حملہ : قطری وزیراعظم نے حملے کو ریاستی دہشت گردی قرار دیا
امریکہ اور ڈونلڈ ٹرمپ کا ردعمل
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق واشنگٹن اس کارروائی سے خاصا ناراض ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی مشیروں نے اسرائیل کے فیصلے پر غصے کا اظہار کیا کہ انہیں بروقت آگاہ نہیں کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ٹرمپ کو دوحہ پر اسرائیلی حملہ کے آغاز سے چند لمحے پہلے امریکی فوجی حکام نے اطلاع دی، جبکہ اسرائیل کی جانب سے براہِ راست کوئی بریفنگ نہیں دی گئی۔
ٹرمپ نے کہا کہ "ہم یرغمالیوں کی بازیابی کے خواہاں ہیں، لیکن دوحہ پر اسرائیلی حملہ جس طرح کیا گیا اس سے ہم مطمئن نہیں۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بدھ کو اس بارے میں مکمل بیان دیں گے۔
یہ بھی انکشاف ہوا کہ اسرائیل نے اپنے قریبی امریکی اتحادی کو اس اہم فیصلے میں شامل نہیں کیا۔ وائٹ ہاؤس کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف، جن کے قطر سے قریبی تعلقات ہیں، نے بھی کوشش کی کہ دوحہ کو پیشگی اطلاع دے سکیں لیکن جب تک وہ رابطہ کرتے، حملہ شروع ہو چکا تھا۔ قطر کی وزارتِ خارجہ کے مطابق انہیں کسی قسم کی باضابطہ وارننگ نہیں دی گئی۔
اسرئیلی حملہ پر پاکستان کا ردعمل
وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ٹیلی فونک گفتگو میں دوحہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے بزدلانہ اور غیر قانونی اقدام قرار دیا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے قطری قیادت، شاہی خاندان اور عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان قطر کے ساتھ ہر حال میں کھڑا ہے اور امت مسلمہ کے اتحاد کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔
زرائعے کے مطابق وزیر اعظم نے اسرائیلی فورسز کی جانب سے دوحہ میں کی جانے والی وحشیانہ بمباری کو خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔ اس بمباری کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور شہری املاک کو شدید نقصان پہنچا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اسرائیل کے یہ اقدامات بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور قطر کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔

سفارتی سطح پر نئے بحران کا آغاز
دوحہ پر اسرائیلی حملہ کے بعد قطر، امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات ایک نئے بحران میں داخل ہو گئے ہیں۔ قطر ایک طرف امریکہ کا قریبی اتحادی ہے، جس نے حال ہی میں امریکی ایئر فورس کے لیے ایک عالیشان بوئنگ 747 طیارہ بطور تحفہ دیا ہے، جبکہ دوسری طرف حماس کی میزبانی بھی کرتا ہے۔
اسرائیل کا یہ اقدام ٹرمپ انتظامیہ کے لیے بھی ایک دھچکہ ہے، کیونکہ وہ حالیہ مہینوں میں غزہ کی صورتحال میں ثالثی کی کوششیں کر رہے تھے۔ اس سے قبل بھی ٹرمپ حکومت کئی بار اسرائیل کی "یکطرفہ کارروائیوں” پر ناراضی ظاہر کر چکی ہے، جن میں دمشق اور غزہ میں کی جانے والی بمباری شامل ہے۔
حماس کے مستقبل پر سوالیہ نشان
اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حماس قیادت اپنے لیے مستقبل میں کس ملک کو محفوظ سمجھ سکے گی؟ ترکی اور مصر جیسے ممالک میں اس کے غیر رسمی دفاتر موجود ہیں، لیکن دوحہ کو سب سے محفوظ مقام سمجھا جاتا تھا۔ تازہ کارروائی نے اس اعتماد کو ہلا دیا ہے۔
غزہ میں حماس قیادت کو پہلے ہی شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ اس کے یرغمالیوں کے معاملے پر اسرائیل اور مغربی ممالک مسلسل تنقید کر رہے ہیں، جبکہ غزہ کے عوام روزانہ بمباری اور ناکہ بندی کی اذیت سہہ رہے ہیں۔ ایسے میں بیرونِ ملک قیادت کے ٹھکانوں پر بھی حملے ہونے لگیں تو اس تنظیم کے لیے اپنے سیاسی وجود کو قائم رکھنا مزید مشکل ہو جائے گا۔

جنگ بندی کے امکانات اور نئے خدشات
دوحہ پر اسرائیلی حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب جنگ بندی پر مذاکرات جاری تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر ایسے وقت میں کارروائی کی تاکہ دباؤ بڑھایا جا سکے۔ تاہم اسرائیلی موقف ہے کہ حماس کی سرنگوں میں ان کے یرغمالی سخت حالات میں رکھے گئے ہیں، اس لیے کارروائیاں روکنا ممکن نہیں۔
یہ صورتحال اس خطے کو مزید غیر مستحکم کر سکتی ہے۔ قطر اور دیگر خلیجی ریاستیں اس وقت بڑے سفارتی فیصلوں کے دہانے پر کھڑی ہیں کہ آیا وہ حماس کی میزبانی جاری رکھیں یا اسرائیل اور امریکہ کے دباؤ کے تحت اپنی پالیسی بدلیں۔
دوحہ پر اسرائیلی حملہ نہ صرف عسکری لحاظ سے ایک غیر معمولی واقعہ ہے بلکہ اس کے خطے کی سفارت کاری، قطر کے کردار اور عالمی طاقتوں کی پالیسیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری کشمکش اب قطر کے دل تک پہنچ گئی ہے۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ قطر اس واقعے(israel attack qatar) کے بعد اپنی "ثالثی” کی پوزیشن برقرار رکھ سکتا ہے یا نہیں۔ اسی طرح امریکہ اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج بھی مستقبل کے عالمی منظرنامے پر اثر ڈال سکتی ہے۔ ایک بات البتہ طے ہے: یہ واقعہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کو ایک نئے دوراہے پر لے آیا ہے، جہاں ہر فیصلہ نئے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔
Recent attack on doha by israel....If still the world says that islam is a problem, then I am against the world....#DOHA #qatar. pic.twitter.com/utalg9arnj
— Faraz Rabbani (@Al_quds___) September 9, 2025
Comments 3