خیبر پختونخوا میں زلزلے کے جھٹکے، قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت
زلزلے کے جھٹکوں سے خیبر پختونخوا لرز اٹھا: قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ تیاری کی ضرورت
قدرتی آفات انسان کو اس کی محدود حیثیت کا احساس دلاتی ہیں، اور انہی میں سے ایک خوفناک اور اچانک آفت ہے زلزلہ۔ حالیہ دنوں میں خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں زلزلے کے جھٹکوں نے لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا۔ اگرچہ خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، مگر یہ واقعہ ہمیں ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم ایسی قدرتی آفات کے لیے تیار ہیں؟
متاثرہ علاقے: پہاڑی سلسلوں میں گونجتی زمین کی لرزش
منگل کی شام پشاور، اٹک، لوئر دیر، اپر دیر، سوات اور چترال کے علاقوں میں اچانک زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ ان علاقوں کے مکینوں نے بتایا کہ زمین تقریباً 10 سے 15 سیکنڈ تک لرزتی رہی، جس سے خوف زدہ ہو کر لوگ اپنے گھروں اور دفاتر سے باہر نکل آئے۔ کچھ علاقوں میں مساجد سے اعلانات کیے گئے اور لوگ اجتماعی طور پر دعائیں مانگتے دکھائی دیے۔
زلزلہ پیما مرکز کی رپورٹ: ہندوکش ایک بار پھر مرکز
زلزلہ پیما مرکز (Seismological Center) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق:
زلزلے کی شدت: 5.5 ریکٹر اسکیل
گہرائی: 195 کلومیٹر
مرکز: ہندوکش، افغانستان
ہندوکش کا پہاڑی علاقہ جنوبی ایشیا کا وہ خطہ ہے جو جیولوجیکل طور پر سب سے زیادہ فعال زلزلہ زون میں شامل ہے۔ یہاں زمین کی اندرونی پرتیں (tectonic plates) مسلسل حرکت میں رہتی ہیں، جس کی وجہ سے ایسے زلزلے معمول بن چکے ہیں۔
جانی یا مالی نقصان کی اطلاعات نہیں
خوش آئند بات یہ ہے کہ ریسکیو 1122 اور دیگر متعلقہ اداروں کے مطابق زلزلے سے کسی قسم کے جانی یا مالی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق:
- کوئی عمارت زمین بوس نہیں ہوئی
- کسی سڑک یا پل کو نقصان نہیں پہنچا
- ہسپتالوں میں کسی زخمی کی آمد رپورٹ نہیں ہوئی
تاہم، بعض علاقوں میں خوف کے مارے شہریوں کو بے ہوش ہونے یا دل کی تکلیف کے واقعات ضرور دیکھنے میں آئے، جنہیں فوری طور پر طبی امداد فراہم کی گئی۔
پاکستان: زلزلوں کی زد میں رہنے والا ملک
پاکستان جغرافیائی طور پر ایسی جگہ واقع ہے جہاں تین بڑی ٹیکٹونک پلیٹس – یوریشین، انڈین اور عربین پلیٹس – آپس میں ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں زلزلوں کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے، خصوصاً شمالی اور مغربی علاقوں میں۔
چند ماضی کے خطرناک زلزلے:
2005 کا زلزلہ: آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں آنے والا 7.6 شدت کا زلزلہ، جس میں 80 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔
2015 زلزلہ: پاکستان، افغانستان اور بھارت میں 7.5 شدت کا زلزلہ، جس میں 300 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔
ان واقعات نے ہمیں یہ سبق دیا کہ زلزلے صرف قدرتی آفات نہیں، بلکہ انسانی زندگی، معیشت، انفراسٹرکچر اور ذہنی سکون کو بھی ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔
ماہرینِ ارضیات کیا کہتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق ہندوکش کا علاقہ ایک "seismic hotspot” ہے، یعنی ایک ایسا علاقہ جہاں زمین کے نیچے پلیٹوں کی مسلسل حرکت سے زلزلے کا خطرہ مستقل موجود رہتا ہے۔
ڈاکٹر فہیم عباس، ماہر ارضیات، کے مطابق:
"ہندوکش میں ہونے والا ہر زلزلہ ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ ہم ایک فعال زلزلہ زون میں رہتے ہیں، اور ہمیں اس حقیقت کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ گہرائی میں آنے والے زلزلے (جیسے 195 کلومیٹر گہرائی والے) عموماً کم نقصان دہ ہوتے ہیں، مگر ان کی شدت زیادہ علاقوں میں محسوس کی جاتی ہے۔
عوام کا ردعمل: دعا، خوف، اور غیر یقینی صورتحال
زلزلے کے جھٹکے جب محسوس کیے گئے تو سوشل میڈیا پر اس حوالے سے مختلف ویڈیوز، تصاویر اور تبصرے دیکھنے کو ملے۔ لوگ اپنے گھروں سے باہر کھلے میدانوں میں نکل آئے، بچوں اور بزرگوں کو سہارے دیے گئے، اور بہت سے افراد نے مساجد کا رخ کیا۔
چترال کے ایک مقامی باشندے کا کہنا تھا:
"ہم نے اپنی زندگی میں ایسے کئی زلزلے محسوس کیے ہیں، لیکن ہر بار خوف ویسا ہی ہوتا ہے۔ سب کچھ پل بھر میں ختم ہو سکتا ہے۔”
حکومتی اداروں کی تیاری: صرف زبانی دعوے؟
اگرچہ حکومت نے 2005 کے زلزلے کے بعد "نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA)” قائم کی، مگر ابھی تک:
- اسکولوں میں زلزلہ سے بچاؤ کی تربیت عام نہیں
- عمارتوں کی تعمیر میں زلزلہ مزاحم اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا
- شہری علاقوں میں ہنگامی نکاسی راستے (emergency exits) ناپید ہیں
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہر بار زلزلے کے بعد وقتی طور پر سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں، مگر کچھ دن بعد سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے، اور سابقہ خطرات فراموش کر دیے جاتے ہیں۔
عوامی تحفظ کے لیے چند عملی اقدامات
ہمیں بحیثیت قوم زلزلوں سے بچاؤ کے لیے سنجیدہ اور مسلسل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ درج ذیل تجاویز اس حوالے سے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں:
- زلزلہ مزاحم تعمیرات کو فروغ دیں
حکومت اور بلدیاتی اداروں کو چاہیے کہ نئی عمارتوں کے لیے سخت ضوابط بنائیں جو زلزلہ مزاحم تکنیکوں پر مبنی ہوں۔
- اسکولوں میں تربیت
بچوں کو ابتدائی سطح پر ہی زلزلہ سے بچاؤ اور فوری ردِعمل کی تربیت دی جائے تاکہ وہ ایسے وقت میں محفوظ رویے اپنا سکیں۔
- ایمرجنسی ریسپانس پلان
ہر شہری کو کم از کم ایک بنیادی ایمرجنسی پلان معلوم ہونا چاہیے، مثلاً کہاں جانا ہے، کیا ساتھ لے جانا ہے، اور کن نمبروں پر رابطہ کرنا ہے۔
- زلزلہ الرٹ سسٹم
ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے زلزلہ سے پہلے کا "وارننگ سسٹم” فعال کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ جاپان اور امریکہ میں کیا جاتا ہے۔
لمحہ موجود میں بیدار ہونے کی ضرورت
خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں آنے والا حالیہ زلزلہ اگرچہ نسبتاً کم شدت کا تھا اور کسی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی، مگر یہ ہمیں ایک بار پھر خبردار کرتا ہے کہ قدرت کی طاقت کے آگے ہم بے بس ہیں۔ ہمیں نہ صرف ان خطرات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا بلکہ سماجی، تعلیمی اور حکومتی سطح پر تیاری کو بھی عملی جامہ پہنانا ہوگا۔
زلزلہ آ جائے تو ہم صرف خدا سے پناہ مانگ سکتے ہیں، لیکن زلزلے سے پہلے کی تیاری صرف انسانی عقل، شعور، اور تدبیر سے ہی ممکن ہے۔ آج کا دن ہمیں ایک موقع دے رہا ہے کہ ہم مستقبل کے لیے محفوظ راہیں تلاش کریں، ورنہ شاید کل ہمارے پاس وقت نہ ہو۔
