جہلم پولیس نے متنازع ویڈیو بیان کے بعد مذہبی اسکالر انجینئر محمد علی مرزا گرفتار ، 30 دن کیلئے جیل بھی منتقل
جہلم — پنجاب کے تاریخی شہر جہلم میں پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے مذہبی اسکالر اور محقق انجینئر محمد علی مرزا گرفتار ان کو ایک حالیہ متنازع ویڈیو بیان کے بعد حراست میں لے کر تھری ایم پی او آرڈیننس کے تحت جیل منتقل کردیا ہے۔ انجینئر محمد علی مرزا گرفتاری کے دوران مرزا کی اکیڈمی کو بھی سیل کر دیا گیا ہے اور داخلی راستوں پر پولیس تعینات کر دی گئی ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کو روکا جا سکے۔
ڈپٹی کمشنر جہلم محمد میثم عباس اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر احمد محی الدین نے انجینئر محمد علی مرزا گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا ہے کیونکہ مرزا کے حالیہ بیان کے بعد شہر میں کشیدگی اور مذہبی حلقوں میں بے چینی پیدا ہو گئی تھی۔
امن عامہ کے خدشات پر کارروائی
پولیس کے مطابق، انجینئر محمد علی مرزا گرفتار ہیں اور انہیں ڈپٹی کمشنر کے خصوصی احکامات پر ایم پی او آرڈیننس کی دفعہ 3 کے تحت 30 دن کے لیے جیل بھیجا گیا ہے۔ یہ دفعہ انتظامیہ کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو اس وقت حراست میں لے سکتی ہے جب اس سے عوامی نظم و ضبط یا امن عامہ کو خطرہ لاحق ہو۔
انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق، گزشتہ روز ایک مذہبی گروہ کے نمائندہ وفد نے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کی تھی اور مرزا کے ویڈیو بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس ملاقات کے بعد ہی حکام نے فوری طور پر یہ قدم اٹھایا تاکہ ممکنہ مظاہروں، احتجاج یا فرقہ وارانہ کشیدگی سے بچا جا سکے۔
متنازع بیان اور ردعمل
ذرائع کے مطابق،انجینئر محمد علی مرزا گرفتاری کا سبب ایک انٹرویو یا ویڈیو بیان جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں بعض مذہبی گروہوں نے اسے ’’متنازع‘‘ اور ’’اشتعال انگیز‘‘ قرار دیا۔ اس ویڈیو کے بعد مختلف مکاتب فکر کے علما اور طلبا نے احتجاجی آواز بلند کی اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ مرزا کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
مرزا کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے بیانات مذہبی اختلافات کو ہوا دیتے ہیں اور عوام میں انتشار پیدا کر سکتے ہیں۔ تاہم ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ مرزا صرف تحقیق اور علمی تنقید کرتے ہیں اور ان کی گفتگو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جا رہا ہے۔
انجینئر محمد علی مرزا کون ہیں؟
جہلم کے محلہ مشین کے رہائشی انجینئر محمد علی مرزا ایک معروف مذہبی محقق اور اسکالر ہیں جو اپنے لیکچر اور خطابات سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خصوصاً یوٹیوب پر باقاعدگی سے اپلوڈ کرتے ہیں۔ یوٹیوب پر ان کے سبسکرائبرز کی تعداد 31 لاکھ سے زائد ہے جبکہ لاکھوں افراد ان کے لیکچرز اور تحقیقی مواد کو دیکھتے اور شیئر کرتے ہیں۔
مرزا خود کو ’’غیر فرقہ وارانہ اسلامی محقق‘‘ کے طور پر متعارف کرواتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف قرآن و سنت اور مستند تاریخی حوالوں کی بنیاد پر دین کی تشریح کرتے ہیں۔ تاہم، مختلف اوقات میں ان کے خیالات اور بیانات کو مذہبی حلقوں میں شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
ماضی میں تنازعات اور گرفتاری
یہ پہلی بار نہیں کہ انجینئر محمد علی مرزا گرفتار یا قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
مئی 2020 میں جہلم پولیس نے بعض مذہبی شخصیات کے خلاف مبینہ توہین آمیز بیانات کے الزام میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا اور انجینئر محمد علی مرزا کو گرفتار بھی کیا، تاہم بعد میں وہ ضمانت پر رہا ہوگئے تھے۔
مارچ 2021 میں مرزا پر ان کی اکیڈمی میں قاتلانہ حملہ کیا گیا، تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے۔ حملہ آور کو گرفتار کر کے اقدامِ قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال محرم کے موقع پر بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کے خدشات کے باعث جہلم انتظامیہ نے انجینئر محمد علی مرزا سمیت 17 دیگر علما کے بیانات نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ مرزا کی شخصیت ہمیشہ ایک متنازع دائرے میں رہی ہے، جہاں ایک طرف ان کے حامی ان کو ’’اصلاحی اسکالر‘‘ سمجھتے ہیں، وہیں مخالفین ان پر ’’مذہبی انتشار‘‘ پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کے مطابق، تھری ایم پی او (Maintenance of Public Order Ordinance) ایک ایسا قانون ہے جس کے تحت انتظامیہ کسی بھی شخص کو بغیر مقدمے کے 30 دن تک حراست میں رکھ سکتی ہے اگر اسے خدشہ ہو کہ وہ امن عامہ کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتا ہے۔ تاہم، ناقدین اس قانون کو ’’آزادی اظہار‘‘ پر قدغن سمجھتے ہیں۔
سینئر وکیلوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ قانون بظاہر امن قائم رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، مگر ماضی میں اس کا استعمال اکثر متنازع رہا ہے کیونکہ اس کے تحت گرفتاری کے لیے براہِ راست عدالتی اجازت ضروری نہیں ہوتی۔
اسلام آباد مسجد شہید : مدنی مسجد کے انہدام پرحکومت اورعلما میں تناؤ، 48 گھنٹے کی ڈیڈ لائن جاری
سوشل میڈیا پر ردعمل
انجینئر محمد علی مرزا گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے چاہنے والوں اور ناقدین کے درمیان بحث چھڑ گئی ہے۔
انجینئر محمد علی مرزا گرفتارہونے کے بعد ان کے حامیوں نے اس گرفتاری کو ’’اظہار رائے کی آزادی پر حملہ‘‘ قرار دیا ہے اور ٹوئٹر/ایکس پر مختلف ہیش ٹیگز کے ذریعے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
مخالفین کا کہنا ہے کہ مرزا کے بیانات نے پہلے بھی معاشرے میں اختلاف اور بے چینی پیدا کی ہے، لہٰذا ان کے خلاف کارروائی اور انجینئر محمد علی مرزا گرفتاری بالکل درست اقدام ہے۔
یوٹیوب اور فیس بک پر بھی مرزا کی پرانی ویڈیوز دوبارہ وائرل ہونے لگی ہیں اور عوامی رائے ایک مرتبہ پھر دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔
عوامی و مذہبی حلقوں کی رائے
جہلم اور دیگر شہروں میں عوامی سطح پرانجینئر محمد علی مرزا گرفتاری پر مختلف ردعمل دیکھنے کو ملا ہے۔ بعض شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو اظہار رائے کے حق کو محدود نہیں کرنا چاہیے جبکہ دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ اگر کسی بیان سے فرقہ وارانہ فسادات کا خطرہ ہو تو ایسے بیانات کو روکنا ہی بہتر ہے۔
علمائے کرام کے وفد نے انتظامیہ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ حکومت نے بروقت اقدام اٹھایا ہے، بصورت دیگر شہر میں کشیدگی پیدا ہوسکتی تھی۔
انجینئر محمد علی مرزا گرفتاری پاکستان میں مذہبی بیانیے، آزادی اظہار اور ریاستی اقدامات کے درمیان موجود کشمکش کو ایک بار پھر اجاگر کرتی ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ ان کے خلاف مزید قانونی کارروائی ہوگی یا 30 دن بعد انہیں رہا کردیا جائے گا۔
فی الحال ان کی اکیڈمی سیل ہے، شاگرد پریشان ہیں اور سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے۔ ایک بات طے ہے کہ مرزا کی شخصیت ایک بار پھر ملکی منظرنامے پر مرکزِ نگاہ بن گئی ہے اور آنے والے دنوں میں ان کی گرفتاری مزید سیاسی اور مذہبی مباحث کو جنم دے گی۔
The arrest of Engineer Muhammad Ali Mirza is not about “public order.” It is about silencing independent voices who dare to question sectarian clergy and challenge the monopoly of state-approved lapdogs. Engineer Mirza has spent years educating youth, building bridges across… pic.twitter.com/j46zcfiIgr
— J Sajjal Shaheedi (@JSajjal) August 25, 2025