حکومتِ پاکستان کا وفاقی آئینی عدالت کی تشکیل کا عمل شروع، 7ججز کے نام شارٹ لسٹ، عدلیہ میں نئے دور کا آغاز
اسلام آباد (رئیس الاخبار) :—27ویں آئینی ترمیم کے پارلیمان سے بخوبی منظور ہونے کے بعد حکومتِ پاکستان نے اعلیٰ عدلیہ کی ازسرِنو تشکیل کا باقاعدہ عمل شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں مجوزہ وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court – FFC) کے لیے سات جج صاحبان کے نام شارٹ لسٹ کر لیے گئے ہیں، جو آئین کی تشریح اور وفاق و صوبوں کے درمیان تنازعات کے حل میں مرکزی کردار ادا کریں گے۔
عدالتی ڈھانچے کی از سرِ نو تشکیل
ذرائع کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا مقصد آئینی مقدمات کی بروقت سماعت، شفاف فیصلے اور سپریم کورٹ پر بوجھ میں کمی لانا ہے۔ وزارتِ قانون نے تصدیق کی ہے کہ عدالت کے ججوں کی تقرری صدرِ مملکت وزیرِاعظم کی سفارش پر کریں گے، جیسا کہ 27ویں آئینی ترمیم میں درج ہے۔
حکومتی مؤقف کے مطابق یہ قدم عدلیہ کی خودمختاری، تیز تر انصاف اور آئینی فیصلوں میں تسلسل لانے کے لیے ضروری ہے۔
مجوزہ عدالت کا ڈھانچہ
ابتدائی طور پر عدالت کے سات جج صاحبان ہوں گے، جن کی تعداد ایک صدارتی حکم کے ذریعے متعین کی جائے گی۔ مستقبل میں اس تعداد میں اضافہ صرف پارلیمان کی منظوری سے ممکن ہوگا۔
یہ عدالت اسلام آباد میں وفاقی شرعی عدالت کی عمارت میں قائم کی جائے گی، جبکہ شرعی عدالت کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت میں منتقل کیا جائے گا تاکہ انتظامی و علامتی طور پر دونوں ادارے علیحدہ شناخت برقرار رکھ سکیں۔
وفاقی آئینی عدالت کو آئین کی تشریح، وفاق و صوبوں کے درمیان تنازعات، صدارتی ریفرنسز، آئینی ترامیم اور پارلیمان یا صدر کی جانب سے بھیجے گئے آئینی سوالات پر فیصلہ دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔
پس منظر
علیحدہ آئینی عدالت کا تصور نیا نہیں۔ اس کی بنیاد 2006 کے چارٹر آف ڈیموکریسی (میثاقِ جمہوریت) میں رکھی گئی تھی جسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مشترکہ طور پر پیش کیا تھا۔ بعد ازاں یہ تجویز 26ویں ترمیم کے مسودے میں بھی شامل کی گئی، تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت بعض جماعتوں کی مخالفت کے باعث مؤخر کر دی گئی۔
جج صاحبان کے ممکنہ نام
ذرائع کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے لیے جسٹس امین الدین خان کا نام زیرِ غور ہے، جو اس وقت سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر نام درج ذیل ہیں:
جسٹس سید حسن اظہر رضوی — آئینی و انتظامی قانون کے ماہر، دیانتداری کے حوالے سے معروف۔
جسٹس مسرت ہلالی — سپریم کورٹ کی جج اور پشاور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس۔
جسٹس عامر فاروق — سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ، آئینی و تجارتی قانون کے ماہر۔
جسٹس علی باقر نجفی — لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج، 37 ہزار سے زائد مقدمات کے فیصلے تحریر کر چکے۔
جسٹس کے کے آغا — سندھ ہائی کورٹ کے جج، بین الاقوامی قانونی تجربے کے حامل۔
جسٹس روزی خان بریچ — چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ، طویل عدالتی خدمات کے حامل۔
ریٹائرمنٹ اور مدتِ ملازمت
وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کی گئی ہے، جو سپریم کورٹ کے ججوں (65 سال) سے تین سال زیادہ ہے، تاکہ تجربہ کار جج زیادہ عرصہ خدمات انجام دے سکیں۔
قانونی ماہرین کا ردِعمل
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نئی عدالت مؤثر طور پر کام کرے تو یہ پاکستان کے عدالتی نظام میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔ تاہم بعض حلقوں کو خدشہ ہے کہ اس سے سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے اختیارات میں ٹکراؤ پیدا ہو سکتا ہے۔
اختتامی تبصرہ
وفاقی آئینی عدالت کا قیام بلاشبہ عدلیہ کی تاریخ میں ایک بڑا سنگِ میل ہے۔ اس کے ذریعے جہاں آئینی مقدمات میں تیزی آئے گی، وہیں عدالتِ عظمیٰ کو دیگر اپیلوں پر بہتر توجہ دینے کا موقع ملے گا۔ تاہم، اس نئے نظام کی کامیابی کا انحصار اس کی غیرجانبداری، شفافیت، اور عملی مؤثریت پر ہوگا۔
Urdu Translation of letter from
MR. JUSTICE SYED MANSOOR ALI SHAH, SUPREME COURT OF PAKISTAN on the 27th Constitutional Amendment
to
Chief Justice Yahya Afridi,
Supreme Court of Pakistan
Islamabad
8 November 2025
Subject: Urgent Institutional Consultation Regarding the… pic.twitter.com/e1MEL7h6ln
— Haider Mehdi (@SHaiderRMehdi) November 10, 2025











Comments 1