استنبول میں غزہ اجلاس: مسلم دنیا کی مشترکہ آواز، امن اور انصاف کے لیے اہم موڑ
ترکیہ کے تاریخی اور سفارتی مرکز استنبول میں آج ایک نہایت اہم اور غیر معمولی اجلاس منعقد ہو رہا ہے جسے عام طور پر "غزہ اجلاس” کے نام سے یاد کیا جا رہا ہے۔ اس اجلاس کی میزبانی ترک وزیرِ خارجہ حاقان فدان کر رہے ہیں، جو خطے میں امن، انسانی حقوق اور فلسطینی عوام کے تحفظ کے لیے ترکیہ کے فعال کردار کا مظہر ہے۔
یہ اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب غزہ میں جاری انسانی بحران سنگین ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے کی جانے والی مسلسل بمباری اور محاصرے کے باعث ہزاروں بے گناہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ لاکھوں افراد خوراک، ادویات اور پناہ جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ ان حالات میں مسلم دنیا کے بڑے ممالک کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا نہ صرف سفارتی لحاظ سے ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک منظم کوشش بھی ہے۔
شرکائے اجلاس اور ان کی نمائندگی
غزہ اجلاس میں آٹھ اہم عرب اور مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہو رہے ہیں، جن میں ترکیہ، پاکستان، سعودی عرب، قطر، مصر، اردن، انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) شامل ہیں۔
پاکستان کی جانب سے اس اجلاس میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان کی شرکت نہ صرف پاکستان کی فلسطین کے حوالے سے مستقل پالیسی کا تسلسل ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کے تعمیری کردار کی علامت بھی ہے۔
اجلاس کا ایجنڈا: جنگ بندی اور انسانی حقوق کے تحفظ پر فوکس
ترک وزارتِ خارجہ کے مطابق اجلاس کا بنیادی ایجنڈا غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی، اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا جائزہ لینا ہے۔
ترک وزیر خارجہ حاقان فدان اجلاس میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی سے فرار کے لیے بنائے گئے بہانوں اور جاری جارحیت کو بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کریں گے۔ وہ عالمی برادری پر زور دیں گے کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کے عالمی اصولوں کے تحت جوابدہ بنایا جائے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق، پاکستان اجلاس میں اس موقف کو بھرپور انداز میں پیش کرے گا کہ غزہ میں مکمل جنگ بندی کے بغیر کسی بھی امن کوشش کو کامیاب نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان اس بات پر زور دے گا کہ اسرائیلی افواج کا مقبوضہ فلسطینی علاقوں، خصوصاً غزہ، سے مکمل انخلاء کیا جائے اور فلسطینی عوام کو اپنی سرزمین پر آزادانہ زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔
مسلم دنیا کا متفقہ مؤقف: فلسطین کے ساتھ غیر متزلزل حمایت
یہ اجلاس مسلم ممالک کے درمیان یکجہتی اور مشترکہ حکمتِ عملی کی ایک اہم کڑی ہے۔ مختلف ذرائع کے مطابق، اجلاس میں شریک وزرائے خارجہ ایک متفقہ اعلامیہ جاری کریں گے جس میں نہ صرف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی جائے گی بلکہ عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ فلسطین میں انسانی المیے کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کریں۔
اجلاس میں یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مسلم ممالک مشترکہ انسانی امدادی مہم شروع کرنے پر غور کریں گے، تاکہ محصور غزہ کے عوام تک خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کی ترسیل ممکن بنائی جا سکے۔
ترکیہ کا کردار: سفارتی قیادت اور عملی اقدامات
ترکیہ ماضی سے ہی فلسطین کے مسئلے پر ایک فعال اور مؤثر آواز کے طور پر سامنے آیا ہے۔ صدر رجب طیب اردوان اور وزیر خارجہ حاقان فدان نے متعدد مواقع پر اسرائیلی مظالم کے خلاف کھل کر آواز بلند کی ہے۔
ترکیہ کی قیادت سمجھتی ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا پائیدار حل صرف دو ریاستی فارمولے کے تحت ممکن ہے، جس میں فلسطینی عوام کو آزاد اور خودمختار ریاست کا درجہ دیا جائے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔
استنبول اجلاس اسی وژن کا تسلسل ہے، جس میں ترکیہ اپنے سفارتی تعلقات، انسانی امدادی نیٹ ورک اور عالمی اثر و رسوخ کو بروئے کار لا کر فلسطین کے حق میں عالمی حمایت کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان کا اصولی مؤقف: انصاف پر مبنی امن ہی پائیدار امن ہے
پاکستان ہمیشہ سے فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ ہر فورم پر پاکستان نے اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کی ہے اور اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں میں فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت کی ہے۔
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار اجلاس میں پاکستان کا یہی اصولی مؤقف پیش کریں گے کہ امن و انصاف لازم و ملزوم ہیں۔ جب تک فلسطینی عوام کو حقِ خودارادیت نہیں دیا جاتا، خطے میں امن کا خواب ادھورا رہے گا۔
پاکستان اجلاس میں یہ بھی تجویز پیش کرے گا کہ مسلم ممالک ایک مشترکہ "فلسطین سپورٹ فنڈ” قائم کریں، جس کے ذریعے انسانی امداد، طبی سہولیات اور تعلیمی منصوبوں کو پائیدار بنیادوں پر مالی مدد فراہم کی جا سکے۔
عالمی ردِعمل اور سفارتی دباؤ کی ضرورت
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ عالمی برادری، خصوصاً مغربی ممالک، اسرائیلی مظالم پر مؤثر ردِعمل دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود اسرائیل کی جانب سے مسلسل انسانی حقوق کی پامالی جاری ہے۔
استنبول اجلاس کا مقصد یہی ہے کہ مسلم دنیا ایک متحد آواز کے ساتھ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑے۔ اجلاس میں شریک ممالک یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر عالمی ادارے انصاف فراہم نہیں کرتے تو مسلم دنیا اپنے وسائل اور سفارتی ذرائع کو استعمال میں لانے سے گریز نہیں کرے گی۔
متوقع نتائج: ایک نئے سفارتی مرحلے کی شروعات
اگرچہ استنبول اجلاس سے فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان متوقع نہیں، تاہم اس اجلاس کے ذریعے فلسطین کے مسئلے کو دوبارہ عالمی ایجنڈے پر لانے کی ایک مضبوط بنیاد رکھ دی جائے گی۔
ماہرین کے مطابق، اگر مسلم ممالک اس اجلاس کے بعد عملی اقدامات، جیسے مشترکہ قرارداد، سفارتی دباؤ، اور انسانی امداد کے منظم انتظامات پر اتفاق کر لیتے ہیں، تو یہ فلسطینی عوام کے لیے امید کی ایک نئی کرن ثابت ہو گا۔
استنبول اجلاس—مسلم اتحاد اور عالمی انصاف کی نئی امید
استنبول میں منعقد ہونے والا غزہ اجلاس محض ایک سفارتی تقریب نہیں بلکہ مسلم دنیا کی اجتماعی بیداری اور انسانیت کے تحفظ کا اعلان ہے۔ ترکیہ کی میزبانی میں ہونے والا یہ اجلاس اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف ایک خطے کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔
پاکستان، ترکیہ اور دیگر مسلم ممالک کا یہ اتحاد اس پیغام کا حامل ہے کہ فلسطینی عوام کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ جب تک غزہ میں امن، آزادی اور انصاف قائم نہیں ہوتا، مسلم دنیا کی آواز بلند ہوتی رہے گی۔












Comments 1