پاکستان پر قرضوں کا بوجھ: ہر شہری 3 لاکھ 18 ہزار روپے کا مقروض، فوری مالی اصلاحات کی ضرورت
پاکستان کی معاشی صورتحال اور قرضوں کا بوجھ
پاکستان کی معیشت اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے، اور قرضوں کا بوجھ ملک کے ہر شہری پر بھاری پڑ رہا ہے۔ حالیہ اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ رپورٹ کے مطابق، ہر پاکستانی شہری پر اس وقت 3 لاکھ 18 ہزار 252 روپے کا قرض ہے، جو کہ ایک دہائی قبل 90 ہزار 47 روپے تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں ہر شہری پر قرضوں کا بوجھ تین گنا بڑھ گیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف معاشی عدم استحکام کی طرف اشارہ کرتی ہے بلکہ پاکستان کی معاشی پالیسیوں پر بھی سوالات اٹھاتی ہے۔
قرضوں کی شرح میں اضافہ
رپورٹ کے مطابق، پاکستان پر قرضوں کا بوجھ سالانہ اوسطاً 13 فیصد کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔ اس تیزی سے بڑھتے ہوئے قرض کی وجہ سے ہر چھ سال میں قرضوں کا حجم دوگنا ہو جاتا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف معاشی ترقی کے لیے خطرہ ہے بلکہ ملکی معیشت کے استحکام کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ گزشتہ دہائی میں قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھا ہے کہ یہ ملکی معیشت کے 70.2 فیصد کے برابر ہو گیا ہے، جو کہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
قرضوں کا بوجھ کیوں بڑھ رہا ہے؟
قرضوں کے بوجھ میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ حکومتی اخراجات اور آمدنی کے درمیان عدم توازن ہے۔ ٹیکس نیٹ کا محدود ہونا، غیر پیداواری اخراجات، اور بڑھتی ہوئی شرح سود نے قرضوں کے بوجھ کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ، بیرونی قرضوں پر انحصار اور کرنسی کی قدر میں کمی نے بھی اس صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔
ہر شہری پر قرض: ایک جائزہ
دس سال قبل ہر پاکستانی شہری پر اوسطاً 90 ہزار 47 روپے کا قرض تھا۔ اب یہ رقم بڑھ کر 3 لاکھ 18 ہزار 252 روپے ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر پاکستانی، خواہ وہ بچہ ہو یا بوڑھا، اس قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ یہ صورتحال عام شہریوں کے معیار زندگی پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے، کیونکہ حکومتی وسائل کا بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے۔
قرضوں کا بوجھ اور معاشی ترقی
قرضوں کا بوجھ نہ صرف معاشی ترقی کو سست کر رہا ہے بلکہ نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ جب حکومت زیادہ تر وسائل قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتی ہے، تو ترقیاتی منصوبوں، صحت، تعلیم، اور بنیادی ڈھانچے کے لیے فنڈز کم پڑ جاتے ہیں۔ اس سے معاشی ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے، اور روزگار کے مواقع بھی کم ہوتے ہیں۔
حکومتی پالیسیوں پر تنقید
رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر مالی نظم و ضبط نہ اپنایا، تو قرضوں کا بوجھ مزید خطرناک حد تک بڑھ سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، حکومت کو ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے، غیر ضروری اخراجات کو کم کرنے، اور معاشی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، پالیسی ریٹ کو موجودہ 11 فیصد سے کم کر کے 9 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس سے قرضوں پر سود کی لاگت میں 12 کھرب روپے کی کمی ہو سکتی ہے۔
پالیسی ریٹ میں کمی کے فوائد
پالیسی ریٹ میں کمی سے نہ صرف قرضوں پر سود کی لاگت کم ہوگی بلکہ مالیاتی گنجائش بھی بڑھے گی۔ اس سے نجی شعبہ زیادہ مسابقتی ہوگا، اور کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ اس کے نتیجے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، اور معاشی ترقی کی رفتار تیز ہوگی۔
خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان
رپورٹ کے مطابق، پاکستان پر قرضوں کا بوجھ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ جہاں خطے کے دیگر ممالک نے اپنے قرضوں کو معیشت کے تناسب سے کنٹرول کیا ہے، وہیں پاکستان کی معیشت کا 70.2 فیصد قرضوں پر مشتمل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو اپنی معاشی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے
پاکستان نے گزشتہ کئی دہائیوں سے عالمی مالیاتی اداروں جیسے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بڑے پیمانے پر قرضے حاصل کیے ہیں۔ اگرچہ یہ قرضے وقتی طور پر معاشی استحکام لاتے ہیں، لیکن ان کی ادائیگی اور سود کی شرح نے قرضوں کے بوجھ کو مزید بڑھا دیا ہے۔
معاشی اصلاحات کی ضرورت
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری طور پر معاشی اصلاحات نہ کی گئیں، تو قرضوں کا بوجھ ملکی معیشت کو تباہ کر سکتا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا، حکومتی اخراجات کو کم کرنا، اور نجی شعبے کو مضبوط کرنا اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور برآمدات میں اضافہ بھی معاشی استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔
ٹیکس نیٹ کی وسعت
پاکستان میں ٹیکس نیٹ انتہائی محدود ہے، جس کی وجہ سے حکومتی آمدنی کم ہے۔ اگر ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے اور تمام شعبوں سے منصفانہ ٹیکس وصول کیا جائے، تو حکومتی آمدنی میں اضافہ ہوگا، اور قرضوں پر انحصار کم ہوگا۔
برآمدات میں اضافہ
پاکستان کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش اور مقامی صنعتوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا بلکہ قرضوں کا بوجھ کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
مستقبل کے لیے تجاویز
رپورٹ میں کئی اہم تجاویز پیش کی گئی ہیں جو قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ ان میں شامل ہیں:
- مالی نظم و ضبط: حکومتی اخراجات کو کنٹرول کیا جائے اور غیر ضروری اخراجات کو ختم کیا جائے۔
- ٹیکس اصلاحات: ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے اور ٹیکس چوری کو روکا جائے۔
- پالیسی ریٹ میں کمی: پالیسی ریٹ کو کم کر کے معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔
- برآمدات میں اضافہ: نئی منڈیوں کی تلاش اور مقامی صنعتوں کو مضبوط کیا جائے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف مذاکرات – ایک ارب ڈالر کی قسط 2025 کا فیصلہ کن مرحلہ
پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ایک سنگین معاشی چیلنج ہے جو ہر شہری کی زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔ اگر فوری طور پر معاشی اصلاحات نہ کی گئیں، تو یہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مالی نظم و ضبط اپنائے، ٹیکس نیٹ کو وسعت دے، اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے پالیسی ریٹ میں کمی کرے۔ اس سے نہ صرف قرضوں کا بوجھ کم ہوگا بلکہ پاکستان کی معیشت کو استحکام بھی ملے گا۔