راولپنڈی اور اسلام آباد میں روٹی، نان اور پراٹھے کی قیمتیں بڑھنے کا معاملہ: انتظامیہ خاموش
راولپنڈی اور اسلام آباد میں گزشتہ کچھ دنوں سے شہریوں کی زندگی پر براہ راست اثر ڈالنے والے واقعات میں ایک اہم مسئلہ یہ سامنے آیا ہے کہ روٹی، نان اور پراٹھے کی قیمتیں غیر معقول حد تک بڑھ گئی ہیں۔ مقامی تندور مالکان اور نان بائیوں نے قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کیا ہے، جس سے جڑواں شہروں کے عام شہری شدید پریشانی کا شکار ہیں۔
قیمتوں میں اضافہ: تفصیلات
مقامی ذرائع کے مطابق، راولپنڈی اور اسلام آباد میں نان بائیوں نے روٹی کی قیمت 15 روپے سے بڑھا کر 20 روپے کر دی ہے، جبکہ نان کی قیمت 25 روپے کے بجائے اب 30 روپے ہو گئی ہے۔ اسی طرح، کلچہ کی قیمت 30 روپے سے بڑھا کر 40 روپے مقرر کی گئی ہے، اور نان بائی پراٹھا اب 50 روپے کے بجائے 60 روپے میں فروخت کر رہے ہیں۔
یہ اضافہ نہ صرف غریب شہریوں کے لیے بوجھ بن رہا ہے بلکہ روزمرہ کے خریداری کے اخراجات میں بھی خاطر خواہ اضافہ کر رہا ہے۔ روٹی، نان اور پراٹھے کی قیمتیں بڑھنے سے کم آمدنی والے خاندانوں پر سب سے زیادہ اثر پڑ رہا ہے، جو روزانہ کی بنیاد پر ان اشیاء پر انحصار کرتے ہیں۔
انتظامیہ کی خاموشی
سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے ابھی تک اس غیر قانونی اضافہ کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ شہریوں کی جانب سے متعدد بار شکایات کے باوجود متعلقہ حکام خاموش ہیں۔ مقامی انتظامیہ کی یہ خاموشی شہریوں میں ناراضگی اور مایوسی پیدا کر رہی ہے۔
شہری کہتے ہیں کہ روٹی، نان اور پراٹھے کی قیمتیں روزانہ کی زندگی کے بنیادی اخراجات میں شامل ہیں، اور ان میں اضافہ زندگی کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔ بہت سے لوگ ان قیمتوں کو قابو میں لانے کے لیے حکومت اور متعلقہ محکموں سے فوری اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اثرات بر معاشرتی زندگی
روٹی، نان اور پراٹھے کی قیمتیں بڑھنے سے معاشرتی اور اقتصادی سطح پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کم آمدنی والے گھرانے جو روزانہ ان اشیاء پر انحصار کرتے ہیں، انہیں اب دیگر ضروریات کی قیمتیں محدود کرنی پڑ رہی ہیں۔ بچوں کی خوراک، روزانہ کے کھانے پینے کی اشیاء، اور دیگر گھریلو اخراجات متاثر ہو رہے ہیں۔
نان بائیوں اور تندور مالکان کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ ان کے پیداواری اخراجات میں اضافے کے سبب ضروری تھا، مگر شہریوں کا مؤقف ہے کہ یہ اضافہ مکمل طور پر من مانی اور بلاوجہ ہے۔
تاریخی پس منظر
راولپنڈی اور اسلام آباد میں گزشتہ کئی سالوں سے روٹی، نان اور پراٹھے کی قیمتیں پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے تھے، مگر اکثر اوقات قوانین اور ضوابط پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اس بار بھی قیمتوں میں اضافہ انتظامیہ کی عدم موجودگی اور نگرانی کی کمی کا نتیجہ ہے۔
اقتصادی ماہرین کا تجزیہ
اقتصادی ماہرین کے مطابق، روٹی، نان اور پراٹھے کی قیمتیں بڑھنے سے روزانہ کی ضروریات کی اشیاء کی افراط زر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ اضافی قیمتیں نہ صرف شہریوں کی خریداری کی طاقت کم کرتی ہیں بلکہ عام صارفین کے بجٹ پر بھی بوجھ ڈالتی ہیں۔
ماہرین نے حکومت اور متعلقہ محکموں پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر نان بائیوں اور تندور مالکان کے خلاف سخت اقدامات کریں، تاکہ قیمتوں میں غیر قانونی اضافہ روکا جا سکے اور شہریوں کو روزمرہ کی ضروریات کے لیے سہولت فراہم کی جا سکے۔
شہریوں کے خیالات
شہریوں کا کہنا ہے کہ روٹی، نان اور پراٹھے کی قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہو گئی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور اور کم آمدنی والے گھرانے اب بنیادی خوراک پر اضافی پیسہ خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔
ایک شہری نے کہا: "روٹی، نان اور پراٹھے کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور انتظامیہ خاموش ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ حکومت اس معاملے میں فوری مداخلت کرے اور قیمتوں کو کنٹرول کرے۔”
حکومت سے مطالبات
شہریوں، تجارتی تنظیموں اور مقامی سطح کے شہری رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ روٹی، نان اور پراٹھے کی قیمتیں مناسب حد تک برقرار رکھی جائیں اور اضافی قیمتیں ختم کی جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بازار کی نگرانی کرے اور تندور مالکان کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔
مزید براں، شہری چاہتے ہیں کہ قیمتوں کے اضافے کے بعد کسی قسم کی غیر یقینی صورتحال پیدا نہ ہو، تاکہ عام آدمی کو روزمرہ کی ضروریات حاصل کرنے میں مشکلات نہ پیش آئیں۔
عدالت نے روٹی اور نان کی قیمتوں کا نوٹیفکیشن معطل کرنے پر غور شروع کر دیا
راولپنڈی اور اسلام آباد میں روٹی، نان اور پراٹھے کی قیمتیں بڑھنے کا یہ معاملہ نہ صرف شہریوں کی زندگی پر اثر ڈال رہا ہے بلکہ معاشرتی اور اقتصادی سطح پر بھی سنگین اثرات مرتب کر رہا ہے۔ انتظامیہ کی خاموشی شہریوں میں ناراضگی پیدا کر رہی ہے، اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
شہری اور ماہرین دونوں کا مؤقف ہے کہ فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں تاکہ روٹی، نان اور پراٹھے کی قیمتیں قابو میں رہیں اور عام آدمی کو بنیادی خوراک کے لیے پریشانی نہ ہو۔










Comments 1