سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں ایک چونکا دینے والا انکشاف سامنے آیا ہے۔
اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ سینیٹرز کے ساتھ سائبر فراڈ کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں چار سینیٹرز لاکھوں روپے سے محروم ہوئے۔
یہ انکشاف پاکستان میں بڑھتے ہوئے آن لائن فراڈ اور ڈیٹا لیکس کے سنگین خطرے کی عکاسی کرتا ہے۔
چار سینیٹرز سائبر فراڈیوں کے نشانے پر
اجلاس میں انکشاف ہوا کہ چار سینیٹرز، جن میں بلال خان مندوخیل، سیف اللہ ابڑو، دلاور خان اور فلک ناز چترالی شامل ہیں،
سائبر ہیکرز کے ہاتھوں مالی نقصان اٹھا چکے ہیں۔

ہیکرز نے فون کالز کے ذریعے سینیٹرز کو ان کے ذاتی اور خاندانی ڈیٹا سے متاثر کر کے اعتماد حاصل کیا اور بعد میں آن لائن فراڈ کے ذریعے لاکھوں روپے لوٹ لیے۔
یہ واقعہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ سینیٹرز کے ساتھ سائبر فراڈ اب ایک منظم نیٹ ورک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
فراڈ کا طریقہ کار — مکمل ڈیٹا کے ساتھ کالز
ذرائع کے مطابق ہیکرز ٹیلی فون کالز کے دوران متاثرہ افراد کو ان کی خاندانی معلومات، شناختی کارڈ نمبر، اور بینک تفصیلات تک بتاتے تھے تاکہ
انہیں یقین دلایا جا سکے کہ کال کسی سرکاری ادارے یا مالی ادارے سے ہے۔
سینیٹر فلک ناز چترالی نے بتایا کہ فراڈیوں نے انہیں "کونسلنگ سینٹر” کے نام پر رقم ٹرانسفر کرنے پر مجبور کیا۔
خاتون سینیٹر نے کہا کہ ہیکرز کے پاس میرے خاندان، بچوں، اور نجی معلومات تک موجود تھیں،
جو ظاہر کرتا ہے کہ ڈیٹا لیک سنگین حد تک بڑھ چکا ہے۔
سینیٹرز کی شکایات اور این سی سی آئی اے کی خاموشی
اجلاس میں اراکین نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ
قومی سائبر کرائم ادارہ (NCCIA) کو شکایات درج کروانے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
سینیٹر دلاور خان نے بتایا کہ ان سے ساڑھے 8 لاکھ روپے لوٹے گئے،
جبکہ سینیٹر فلک ناز چترالی سے پانچ لاکھ روپے دو قسطوں میں نکلوائے گئے۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے بتایا کہ ہیکرز کی گروہ بندی اتنی منظم ہے کہ وہ ہر کال میں 5 سے ساڑھے 5 لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “اگر عوامی نمائندے محفوظ نہیں تو عام شہریوں کا کیا حال ہوگا؟”
یہ تمام کیسز اس بات کو تقویت دیتے ہیں کہ سینیٹرز کے ساتھ سائبر فراڈ کے واقعات
نہ صرف عام شہریوں بلکہ اعلیٰ سطح کے نمائندوں کے لیے بھی بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی کی برہمی
اجلاس کی صدارت سینیٹر فیصل سلیم رحمانی نے کی۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں خود بھی فراڈیوں کی جانب سے فون کال موصول ہوئی۔
چیئرمین نے کہا:

“یہ صورتحال تشویش ناک ہے۔ ہیکرز نہ صرف عوام بلکہ اراکینِ پارلیمنٹ کو بھی لوٹ رہے ہیں۔ این سی سی آئی اے کو فوری کارروائی کرنا ہوگی۔”
انہوں نے ہدایت دی کہ متاثرہ سینیٹرز کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے اور
ڈیجیٹل فراڈ کے نیٹ ورک کی نشاندہی کے لیے الگ تفتیشی ٹیم بنائی جائے۔
ڈی جی این سی سی آئی اے کی وضاحت
ڈی جی سید خرم علی نے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ
ادارے کو عملے اور ٹیکنیکل وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔
انہوں نے بتایا:
“ہم تین ماہ کے اندر نئے افسران بھرتی کریں گے،
اور چھ ماہ میں این سی سی آئی اے کو بہتر اور فعال ادارہ بنا دیا جائے گا۔”
ان کے مطابق اب تک 851 سائبر مجرموں کو گرفتار کیا جا چکا ہے،
جبکہ ٹیلی کام کمپنیوں کا آڈٹ بھی جاری ہے تاکہ ڈیٹا لیکس کے اصل ذرائع سامنے آ سکیں۔
ڈیٹا لیک کا مسئلہ
اجلاس میں پاکستانی شہریوں کے ڈیٹا لیک کا معاملہ بھی زیربحث آیا۔
چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ شہریوں کا ڈیٹا آن لائن فروخت ہونے پر
کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟
ڈی جی این سی سی آئی اے نے جواب دیا کہ
متعدد مقدمات درج ہو چکے ہیں لیکن معاملے کے مکمل حل کے لیے کم از کم تین ماہ درکار ہیں۔
تاہم وزارتِ داخلہ کی بنائی گئی تفتیشی کمیٹی سے متعلق سوال پر
ڈی جی اور اسپیشل سیکرٹری داخلہ دونوں لاعلم نکلے۔
سینیٹرز کے اہلِ خانہ پر بھی خطرہ
خاتون سینیٹر فلک ناز چترالی نے کمیٹی کو بتایا کہ
ہیکرز نے نہ صرف ان سے بلکہ ان کے بچوں سے متعلق بھی معلومات استعمال کیں۔
انہوں نے کہا کہ “یہ عام سائبر فراڈ نہیں بلکہ ایک منظم نفسیاتی حملہ ہے
جو عوامی شخصیات کو ہدف بنا رہا ہے۔”
سینیٹرز کے تحفظ کے اقدامات
کمیٹی چیئرمین نے ہدایت دی کہ
سینیٹر اسلم ابڑو اور سینیٹر سیف اللہ ابڑو کو فوری سیکیورٹی فراہم کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر آئی جی سندھ اور آئی جی بلوچستان آئندہ اجلاس میں شریک نہ ہوئے
تو کمیٹی متفقہ طور پر سخت فیصلہ دے گی۔
قومی سطح پر سائبر سیکیورٹی کی ضرورت
ماہرین کے مطابق، پاکستان میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر تیزی سے بڑھ رہا ہے
مگر سائبر سیکیورٹی کے قوانین اور عملدرآمد میں ابھی بہتری کی ضرورت ہے۔
سینیٹرز کے ساتھ سائبر فراڈ جیسے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں
کہ ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ اور سائبر نگرانی کے نظام کو مزید مضبوط کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔
سینیٹ کمیٹی میں انکشاف: ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان روکنے کیلئے بیرونی دباؤ
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ میں ہونے والا یہ انکشاف ایک سنگین انتباہ ہے۔
جب پارلیمنٹ کے اراکین خود سینیٹرز کے ساتھ سائبر فراڈ جیسے واقعات کا شکار ہو رہے ہیں،
تو عام شہریوں کی ڈیجیٹل حفاظت کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات ناگزیر ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں سائبر کرائم کا پھیلاؤ صرف ٹیکنالوجی کا مسئلہ نہیں رہا،
بلکہ اب یہ قومی سلامتی، اعتماد، اور نجی زندگی کے تحفظ کا معاملہ بن چکا ہے۔









