سندھ میں ڈینگی کی سنگین صورتحال اکتوبر سے اب تک 13 اموات، اسپتال بھر گئے
سندھ میں ڈینگی کی سنگین صورتحال نے عوام، ڈاکٹروں اور محکمہ صحت سب کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
اکتوبر سے اب تک صوبے بھر میں ڈینگی سے 13 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں،
جبکہ روزانہ سینکڑوں نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔
محکمہ صحت کی رپورٹس کے مطابق صرف کراچی اور حیدرآباد میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے،
اور اسپتالوں میں بیڈز کم پڑنے لگے ہیں۔
ڈینگی کی بڑھتی لہر — سندھ میں صورتحال خطرناک موڑ پر
سندھ میں ڈینگی کی سنگین صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے
کہ صرف اکتوبر کے مہینے میں 13 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
اعداد و شمار کے مطابق:
حیدرآباد میں 4 اموات،
ٹنڈو محمد خان میں 1،
کراچی کورنگی میں 1،
کراچی ملیر میں 3،
کراچی شرقی میں 2،
کراچی غربی میں 2 اموات رپورٹ ہوئیں۔
یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ سندھ میں ڈینگی کی سنگین صورتحال شہری اور دیہی دونوں علاقوں کو متاثر کر رہی ہے۔
اسپتالوں کی حالت تشویشناک — مریضوں کا رش اور بیڈز کی کمی
ذرائع کے مطابق کراچی کے جناح اسپتال، سول اسپتال اور دیگر بڑے اسپتالوں میں روزانہ
سینکڑوں مشتبہ مریض لائے جا رہے ہیں۔
تقریباً 350 مریضوں میں سے 80 میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوئی۔
اس کے علاوہ شہر کے سرکاری و نجی اسپتالوں میں یومیہ 500 سے 700 نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔
ایک ڈاکٹر نے بتایا:
“ہماری وارڈز مکمل طور پر بھر چکی ہیں، نئے مریضوں کے لیے جگہ نہیں۔
ڈینگی کی یہ لہر پچھلے سال سے زیادہ خطرناک ہے۔”
یہ تمام صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ سندھ میں ڈینگی کی سنگین صورتحال تیزی سے قابو سے باہر جا رہی ہے۔
اعداد و شمار میں تضاد — اصل صورتحال پوشیدہ
محکمہ صحت کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار
اور اسپتالوں کی رپورٹس میں نمایاں فرق پایا جا رہا ہے۔
محکمہ صحت صوبے بھر کے اعداد و شمار روزانہ جاری کرنے کے بجائے
پندرہ روز یا ماہانہ بنیاد پر رپورٹ دیتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس تاخیر کی وجہ سے
سندھ میں ڈینگی کی سنگین صورتحال کا درست اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اصل کیسز کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
انسدادی اقدامات میں سستی — فیومیگیشن مہم شروع ہی نہیں ہوئی
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ صوبے کے 30 اضلاع میں
ابھی تک انسدادی اسپرے یا فیومیگیشن مہم شروع نہیں کی گئی۔
محکمہ صحت کے مطابق صرف 62 سروے کیے گئے
جن میں 191 مقامات پر مچھروں کی افزائش اور لاروا کی نشاندہی ہوئی۔
یہ غفلت سندھ میں ڈینگی کی سنگین صورتحال کو مزید بگاڑ رہی ہے۔
کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص اور بدین جیسے اضلاع میں
صفائی کی ابتر حالت اور نکاسیٔ آب کا ناقص نظام
ڈینگی مچھر کی افزائش کے لیے سازگار ماحول فراہم کر رہا ہے۔
ماہرینِ صحت کا انتباہ — فوری اقدامات ضروری
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے
تو نومبر اور دسمبر میں سندھ میں ڈینگی کی سنگین صورتحال
مزید خراب ہو سکتی ہے۔
پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ ڈاکٹر ارم ندیم کے مطابق:
“ڈینگی اب صرف موسمی وائرس نہیں رہا،
بلکہ یہ شہری نظامِ صحت کی کمزوریوں کا آئینہ ہے۔
لاروا کنٹرول مہم اور عوامی آگاہی مہم کے بغیر
ہم اس مرض پر قابو نہیں پا سکتے۔”
احتیاطی تدابیر — عوام کے لیے ماہرین کی ہدایات
ڈاکٹرز نے عوام کو ہدایت دی ہے کہ وہ درج ذیل احتیاطی اقدامات کریں تاکہ
سندھ میں ڈینگی کی سنگین صورتحال کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھ سکیں:
گھروں میں کھڑا پانی جمع نہ ہونے دیں۔
مچھروں سے بچاؤ کے اسپرے اور مچھر دانی کا استعمال کریں۔
بچوں کو مکمل بازو والے کپڑے پہنائیں۔
بخار، جوڑوں کے درد، یا جسم پر سرخ دھبے ظاہر ہوں تو فوراً اسپتال جائیں۔
خود علاجی سے گریز کریں۔
حکومتی ردعمل — خاموشی سوالیہ نشان
اب تک سندھ حکومت کی جانب سے کوئی واضح ہنگامی ایکشن پلان سامنے نہیں آیا۔
محکمہ صحت نے صرف ایک بیان میں کہا کہ
“ڈینگی کے کیسز پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے”،
مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ماہرین اور شہری تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے
کہ فوری طور پر سندھ میں ڈینگی کی سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے
ایمرجنسی فنڈز مختص کیے جائیں۔
خیبرپختونخوا میں ڈینگی وبا بے قابو متاثرین 4,836 تک پہنچ گئے
اگر صوبائی حکومت نے فوری توجہ نہ دی
تو سندھ میں ڈینگی کی سنگین صورتحال
مزید خطرناک موڑ اختیار کر سکتی ہے۔
یہ صرف ایک طبی مسئلہ نہیں،
بلکہ ایک انتظامی ناکامی بھی ہے۔
ڈینگی کو قابو میں لانا ممکن ہے،
مگر اس کے لیے ذمہ داری، رفتار اور عوامی شمولیت ضروری ہے۔










Comments 1