عالمی مارکیٹ میں سونا 4 ہزار ڈالر فی اونس سے اوپر، سرمایہ کاروں کا رش بڑھ گیا
عالمی منڈی میں سونے کی قیمت 4000 ڈالر فی اونس سے تجاوز کرگئی: سرمایہ کاری کا نیا رجحان
حالیہ دنوں میں عالمی مالیاتی منڈی میں ایک غیرمعمولی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے، جہاں سونے کی قیمت پہلی بار 4000 امریکی ڈالر فی اونس کی حد عبور کر چکی ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف ایک تاریخی سنگ میل ہے بلکہ اس کے دور رس اثرات عالمی معیشت سے لے کر مقامی سطح تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ ماہرین اور تجزیہ نگار اس اچانک اضافے کی مختلف وجوہات بیان کر رہے ہیں، جن میں جغرافیائی کشیدگیاں، امریکی معیشت کے متعلق غیر یقینی صورتحال، شرحِ سود میں ممکنہ کمی، اور ڈالر کی قدر میں کمی سرفہرست ہیں۔
سونے کی قیمت میں اضافہ: پس منظر اور محرکات
سونے کی عالمی قیمت میں اس قدر تیز رفتاری سے اضافہ سرمایہ کاروں کے رجحان کا واضح عکاس ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاروں میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور عالمی سطح پر معاشی غیر یقینی صورتحال نے انہیں محفوظ سرمایہ کاری کے متبادل، یعنی سونا، کی طرف راغب کیا ہے۔ امریکا میں ممکنہ معاشی شٹ ڈاؤن، فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں نرمی کے اشارے، اور چین و امریکہ کے درمیان تجارتی کشیدگی نے عالمی معیشت پر دباؤ ڈالا ہے۔ ان حالات میں سونا ایک بار پھر "محفوظ پناہ گاہ” (Safe Haven) کے طور پر سامنے آیا ہے۔
ڈالر کی کمزوری اور سونے کی طلب میں اضافہ
آل پاکستان جیم اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق جب بھی ڈالر کمزور ہوتا ہے، سرمایہ کار سونے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ موجودہ حالات میں، امریکی تجارتی پالیسیوں اور شرحِ سود میں ممکنہ کمی نے ڈالر کی قدر کو متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں سرمایہ کار اپنی دولت کو محفوظ رکھنے کے لیے سونے میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
ڈالر کی قدر میں کمی کا ایک اور اہم سبب امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں ہوں یا موجودہ حکومت کی بین الاقوامی پالیسی، دونوں نے عالمی سرمایہ کاری کے ماحول کو غیر مستحکم کیا ہے۔ ایسے میں سونا، جو ہمیشہ سے ایک مستحکم اثاثہ سمجھا جاتا ہے، سرمایہ کاروں کی اولین ترجیح بن چکا ہے۔
سونے کی قیمت میں اضافہ اور اس کے مقامی اثرات
عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمتوں میں اضافے کا اثر پاکستان کی مقامی مارکیٹ پر بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستانی جیولرز کے مطابق اب شادی بیاہ کے لیے سونے کی خریداری کا رجحان تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ صرف سرمایہ کار ہی سونا خرید رہے ہیں، جس کی وجہ سے زیورات کی تیاری میں نمایاں کمی آئی ہے۔ جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق ملک بھر میں 50 فیصد سے زائد جیولری بنانے کے کارخانے بند ہو چکے ہیں، جب کہ کئی ہنرمند بے روزگار ہو گئے ہیں۔
یہ ایک پریشان کن صورتحال ہے، کیونکہ سونے کی قیمتوں میں اس حد تک اضافے نے اس قیمتی دھات کو عام آدمی کی پہنچ سے دور کر دیا ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ، جو روایتی طور پر شادیوں اور دیگر تقریبات کے لیے سونے کے زیورات خریدا کرتے تھے، اب چاندی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ چاندی کی قیمت سونے کی نسبت کہیں زیادہ مستحکم اور کم ہے، جو درمیانے طبقے کے لیے نسبتاً قابل برداشت ہے۔
پلاٹینم سے آگے نکلتا ہوا سونا
ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سونے کی دھات نے اب پلاٹینم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ماضی میں پلاٹینم کو سونے سے زیادہ قیمتی اور نایاب دھات سمجھا جاتا تھا، لیکن حالیہ برسوں میں سونے کی طلب میں غیرمعمولی اضافہ اور سرمایہ کاروں کا جھکاؤ اسے پلاٹینم سے بھی مہنگا بنا چکا ہے۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ سونے کو اب محض زیور سازی کی ایک دھات کے طور پر نہیں بلکہ ایک "سرمایہ کاری کے آلے” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
عالمی جغرافیائی و سیاسی عوامل کا کردار
سرمایہ کاروں کا سونے کی طرف بڑھتا ہوا رجحان صرف معاشی عوامل کی وجہ سے نہیں بلکہ عالمی جغرافیائی اور سیاسی حالات نے بھی اس صورتحال کو جنم دیا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ، مشرق وسطیٰ میں کشیدگی، اور چین کے ساتھ مغربی ممالک کے تناؤ نے بین الاقوامی سطح پر ایک خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔ جب بھی عالمی سطح پر جنگ یا تناؤ کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، سرمایہ کار فوری طور پر سونا خریدنا شروع کر دیتے ہیں، تاکہ اپنے سرمائے کو ممکنہ نقصان سے بچایا جا سکے۔
مقامی مارکیٹ اور مستقبل کے امکانات
پاکستانی جیولرز اور مارکیٹ تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمتوں میں یہ رجحان برقرار رہا، تو آئندہ چند ماہ میں ملک میں سونے کی فی تولہ قیمت ایک نئی تاریخی بلندی تک پہنچ سکتی ہے۔ تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ اس صورتحال نے مقامی مارکیٹ کو منفی انداز میں متاثر کیا ہے۔ صرف سرمایہ کار طبقہ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا رہا ہے، جب کہ عام خریدار اور جیولری انڈسٹری بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔
جیولرز کی بے بسی اور مطالبات
جیولرز ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی جیولری انڈسٹری کو سہارا دینے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ جیولرز کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ زیورات کی تیاری کے لیے سونے پر سبسڈی فراہم کرے یا ایسے اقدامات کرے جس سے یہ انڈسٹری دوبارہ فعال ہو سکے۔ اگر موجودہ صورتحال جاری رہی تو لاکھوں ہنر مند کاریگر مستقل بے روزگاری کا شکار ہو سکتے ہیں۔
سونا، سرمایہ کاروں کی پہلی ترجیح
موجودہ عالمی مالیاتی حالات، سیاسی تناؤ، اور ڈالر کی کمزوری نے سونے کو سرمایہ کاری کا سب سے محفوظ اور منافع بخش ذریعہ بنا دیا ہے۔ 4000 ڈالر فی اونس کی حد عبور کرنا ایک ایسی پیش رفت ہے جو نہ صرف سونے کی بڑھتی ہوئی قدر کو ظاہر کرتی ہے بلکہ عالمی مالیاتی نظام کے غیر مستحکم ہونے کا بھی اشارہ دیتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس کے منفی اثرات زیادہ محسوس کیے جا رہے ہیں، جہاں عام خریدار سونے سے محروم ہوتا جا رہا ہے اور صرف سرمایہ کار اس کی دوڑ میں شامل ہیں۔
دھات عیار / یونٹ قیمت (روپے) تبدیلی عالمی قیمت (فی اونس) سونا (Gold) 24 قیراط فی تولہ 4,25,178 کوئی تبدیلی نہیں 4,039 USD سونا (Gold) 24 قیراط 10 گرام 3,64,521 کوئی تبدیلی نہیں — سونا (Gold) 22 قیراط 10 گرام 3,34,156 کوئی تبدیلی نہیں — چاندی (Silver) 24 قیراط فی تولہ 5,066 +82 روپے اضافہ 49.62 USD چاندی (Silver) 24 قیراط 10 گرام 4,343 +71 روپے اضافہ —
