تھائی لینڈ میں خواجہ سرا مکڑی کی دریافت فطرت کا حیرت انگیز کرشمہ
دنیا کی حیاتیاتی دنیا میں ایک اور حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے۔ سائنس دانوں نے تھائی لینڈ میں خواجہ سرا مکڑی دریافت کی ہے، جو نہ صرف نئی نوع ہے بلکہ اپنے جسمانی ڈھانچے کے اعتبار سے فطرت کا ایک نادر شاہکار بھی ہے۔
تھائی لینڈ کے گھنے اور نم جنگلات میں دریافت ہونے والی یہ مکڑی سائنسی برادری کے لیے دلچسپی کا باعث بن گئی ہے، کیونکہ اس کے جسم میں بیک وقت نر اور مادہ دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
یہ مظہر حیاتیاتی طور پر نہایت کم ہوتا ہے، جسے سائنس کی زبان میں گائینینڈرومورفزم (Gynandromorphism) کہا جاتا ہے۔
نئی نوع کی تفصیلات ڈیمارچس اینازوما کی خصوصیات
ماہرینِ حیاتیات نے اس انوکھی مخلوق کا نام ڈیمارچس اینازوما (Dimarchus enazoma) رکھا ہے، جو ایک جاپانی اینیمے کردار سے متاثر ہو کر تجویز کیا گیا ہے۔
یہ کردار مرد اور عورت کی شکل بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے — بالکل اسی طرح جیسے تھائی لینڈ میں خواجہ سرا مکڑی اپنے جسم کے دو مختلف حصوں میں دو الگ جنسوں کی نمائندگی کرتی ہے۔
اس مکڑی کے جسم کا بایاں حصہ مادہ کی خصوصیات رکھتا ہے — جیسے بڑے جبڑے، چمکدار نارنجی رنگ، اور نسبتاً نرم ساخت۔
جبکہ دایاں حصہ نر مکڑی کی پہچان رکھتا ہے — جس میں چھوٹے مگر مضبوط جبڑے اور سیاہی مائل رنگت نمایاں ہے۔
فطرت کا توازن — نر و مادہ دونوں کا امتزاج
سائنس دانوں کے مطابق تھائی لینڈ میں خواجہ سرا مکڑی کی جسمانی تقسیم نہایت متوازن اور دلکش ہے۔
ایسا لگتا ہے جیسے قدرت نے خود دونوں جنسوں کے امتزاج کو ایک جسم میں فنکارانہ انداز میں سمو دیا ہو۔
یہ تقسیم صرف ظاہری نہیں بلکہ اندرونی طور پر بھی موجود ہے، یعنی اس کے تولیدی خلیات میں بھی نر و مادہ دونوں کے جینیاتی اثرات شامل ہیں۔
گائینینڈرومورفزم کیا ہے؟
یہ اصطلاح یونانی الفاظ Gyne (عورت) اور Andros (مرد) سے ماخوذ ہے۔
سائنس میں تھائی لینڈ میں خواجہ سرا مکڑی جیسے مظاہر کو گائینینڈرومورفزم کہا جاتا ہے — جب ایک ہی جاندار میں دونوں جنسوں کے خلیاتی عناصر موجود ہوں۔
یہ حالت بہت نایاب ہے اور اب تک دنیا میں مکڑیوں کی صرف تیس انواع میں دیکھی گئی ہے۔
بیمرائیڈ خاندان میں یہ پہلا واقعہ ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فطرت ابھی بھی انسانوں کے لیے کئی راز رکھتی ہے۔
یہ مظہر کیسے پیدا ہوتا ہے؟
ماہرین کا ماننا ہے کہ تھائی لینڈ میں خواجہ سرا مکڑی جیسی حالت ابتدائی نشوونما کے دوران جینیاتی تقسیم کے کسی معمولی خلل کی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے۔
کبھی کبھار ماحولیاتی دباؤ، درجہ حرارت کی تبدیلی یا کسی پرجیوی کے اثر سے بھی کروموسومز میں ردوبدل ہو جاتا ہے۔
نتیجتاً ایک ہی انڈے میں نر و مادہ دونوں کے جینیاتی خلیے جنم لیتے ہیں۔
سائنسی اہمیت — تحقیق میں نیا باب
اس دریافت نے حیاتیات کی دنیا میں ایک نیا باب کھول دیا ہے۔
تھائی لینڈ میں خواجہ سرا مکڑی سائنسدانوں کے لیے اس بات کو سمجھنے میں مدد دے گی کہ جینیاتی سطح پر صنفی خصوصیات کیسے تشکیل پاتی ہیں۔
یہ دریافت جنسیت، ارتقاء اور ماحولیاتی اثرات کے درمیان تعلق کو بھی بہتر طور پر سمجھنے کا موقع فراہم کرے گی۔
نیچر جرنل میں شائع رپورٹ کے مطابق، یہ مکڑی مستقبل میں حیاتیاتی تحقیق کے لیے "ماڈل اسپیشیز” کے طور پر استعمال کی جا سکتی ہے۔
ماہرین کی رائے — قدرت کا حسن اور توازن
ڈاکٹر سومچائے ونچت (University of Bangkok) کے مطابق:
“تھائی لینڈ میں خواجہ سرا مکڑی فطرت کی ایک نایاب مثال ہے جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی ہمیشہ دو انتہاؤں کے درمیان کسی نہ کسی توازن میں رہتی ہے۔”
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ فطرت میں صنفی حدود اتنی سخت نہیں جتنی ہم سمجھتے ہیں۔
فطرت کے عجائبات — دیگر مثالیں
ایسی ہی خصوصیات تتلیوں، شہد کی مکھیوں اور کچھ پرندوں میں بھی دیکھی جا چکی ہیں۔
مگر تھائی لینڈ میں خواجہ سرا مکڑی پہلی مکڑی ہے جس میں یہ مظہر اس قدر واضح اور جمالیاتی توازن کے ساتھ سامنے آیا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق، اس مکڑی کا مطالعہ آنے والے برسوں میں ارتقائی حیاتیات کو نئی سمت دے سکتا ہے۔
دبئی اڑتی ٹیکسی کی پہلی آزمائشی پرواز کامیابی سے مکمل، نیا دور شروع
اختتامی کلمات — فطرت کا زندہ کرشمہ
تھائی لینڈ میں خواجہ سرا مکڑی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کائنات میں اب بھی بے شمار راز پوشیدہ ہیں۔
یہ مکڑی نہ صرف سائنسدانوں کے لیے تحقیق کا نیا موضوع ہے بلکہ فطرت کے حسن اور توازن کی ایک جیتی جاگتی مثال بھی ہے۔
یہ دریافت اس بات کا ثبوت ہے کہ قدرت ہمیشہ غیر معمولی راستے اختیار کر کے اپنے اسرار ظاہر کرتی ہے۔









