تحریک لبیک پاکستان امیدواروں کو انتخابی نشان نہ دینے کا معاملہ گرم
تحریک لبیک پاکستان کے امیدواروں کو ضمنی انتخابات میں انتخابی نشان نہ دیے جانے کے معاملے نے سیاسی فضا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس اہم معاملے پر سماعت کی تاریخ مقرر کر دی ہے، جس سے تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان اور حمایت یافتہ ووٹرز میں ایک نئی امید جاگی ہے۔
تحریک لبیک پاکستان اور انتخابی نشان کا تنازعہ
تحریک لبیک پاکستان کے چھ امیدواروں نے اپنے انتخابی نشانات کے حصول کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا۔ ان امیدواروں میں پارٹی سربراہ سعد رضوی بھی شامل ہیں۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ضمنی انتخابات میں تحریک لبیک پاکستان کو بلاوجہ انتخابی نشان سے محروم رکھا جا رہا ہے، جو کہ امیدواروں کے بنیادی انتخابی حق کی خلاف ورزی ہے۔
الیکشن کمیشن کا ردعمل
الیکشن کمیشن نے تحریک لبیک کے چھ امیدواروں کی درخواستوں پر کارروائی کرتے ہوئے سماعت 10 نومبر کو مقرر کر دی ہے۔ کمیشن نے سعد رضوی، دیگر امیدواروں اور متعلقہ ریٹرننگ افسران (آر اوز) کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، سماعت میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ کیا تحریک لبیک کو کالعدم قرار دیے جانے کے باوجود امیدواروں کو انتخابی نشان نہ دینا آئینی طور پر درست ہے یا نہیں۔
قانونی پیچیدگیاں اور تحریک لبیک پاکستان کا مؤقف
تحریک لبیک پاکستان کا کہنا ہے کہ پارٹی کو انتخابی عمل سے باہر کرنا عوامی مینڈیٹ کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ اگر کوئی تنظیم قومی دھارے میں رہ کر سیاسی عمل میں حصہ لینا چاہتی ہے تو اسے اس کا حق ملنا چاہیے۔
وکیلوں کی ٹیم نے الیکشن کمیشن کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیے جانے کا فیصلہ انتظامی نوعیت کا تھا، جبکہ الیکشن میں حصہ لینا ایک آئینی حق ہے۔
سیاسی حلقوں میں ردعمل
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ مستقبل کے انتخابات پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ اگر تحریک لبیک پاکستان کو انتخابی نشان سے محروم رکھا گیا تو یہ نظیر دوسری جماعتوں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب، پارٹی کے کارکنان نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کی تیاری شروع کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کو ہمیشہ دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی ہے، مگر عوامی حمایت اب بھی پارٹی کے ساتھ ہے۔
آئینی و قانونی پہلو
پاکستان کے آئین کے مطابق، کسی بھی امیدوار کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنا صرف اس صورت میں ممکن ہے جب وہ الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی کرے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اگر تحریک لبیک پاکستان بطور پارٹی تحلیل نہ ہوئی ہو، تو اس کے امیدواروں کو انتخابی نشان نہ دینا غیر آئینی قرار دیا جا سکتا ہے۔
سماعت کا ممکنہ نتیجہ
10 نومبر کو ہونے والی سماعت میں الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا کہ آیا تحریک لبیک پاکستان کے امیدواروں کو انتخابی نشان دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اگر کمیشن امیدواروں کے حق میں فیصلہ دیتا ہے، تو یہ نہ صرف پارٹی کے لیے بلکہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے بھی ایک مثبت اشارہ ہوگا۔
عوامی جذبات اور پارٹی کا پیغام
تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد جمہوری عمل میں حصہ لے کر عوام کی خدمت کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “ہم کسی تصادم کے قائل نہیں، مگر اپنے انتخابی حقوق کے لیے آواز ضرور اٹھائیں گے۔”
پارٹی کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نے انصاف نہ دیا تو وہ پرامن احتجاج کے ذریعے اپنا مؤقف واضح کریں گے۔
ٹی ایل پی پر پابندی: وفاقی کابینہ کا فیصلہ، وزارت داخلہ کو کارروائی کی ہدایت
یہ معاملہ صرف تحریک لبیک پاکستان کا نہیں بلکہ پورے سیاسی نظام کی شفافیت کا ہے۔ انتخابی نشان ہر امیدوار کا بنیادی حق ہے، اور اس پر قدغن جمہوری عمل کی ساکھ پر سوال اٹھا سکتی ہے۔ امید ہے کہ الیکشن کمیشن ایک منصفانہ فیصلہ کرے گا تاکہ سب کو برابری کا موقع مل سکے۔









