امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے دوران امیگریشن پالیسیوں میں سختی دیکھنے میں آئی ہے۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کے امیگریشن اقدامات کے تحت اب تک تقریباً 80 ہزار غیر ملکی ویزے منسوخ کیے جا چکے ہیں۔
یہ ویزے مختلف وجوہات پر منسوخ کیے گئے ہیں، جن میں جرائم، سوشل میڈیا پوسٹس، سیاسی نظریات، اور امریکی پالیسیوں سے اختلاف شامل ہیں۔
جرائم کی بنیاد پر ویزا منسوخی
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق، سب سے زیادہ ویزے ان افراد کے منسوخ کیے گئے جنہوں نے ڈرائیونگ انڈر دی انفلوئنس (DUI)، حملہ یا چوری جیسے جرائم کیے۔
اعداد و شمار کے مطابق:
- 16 ہزار ویزے شراب کے نشے میں گاڑی چلانے پر
- 12 ہزار حملے کے کیسز میں
- 8 ہزار چوری کے الزامات پر منسوخ کیے گئے
یہ مجموعی ویزا منسوخیوں کا تقریباً آدھا حصہ بنتے ہیں، جو ٹرمپ انتظامیہ کے امیگریشن اقدامات کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔
سیاسی نظریات اور سوشل میڈیا سرگرمیاں
رپورٹ کے مطابق، صرف جرائم ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر سیاسی خیالات اور بیانات بھی ویزا منسوخی کی بنیاد بنے۔
کئی افراد کے ویزے اس لیے منسوخ کیے گئے کیونکہ ان کے تبصرے امریکی پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔
بعض کیسز میں، چارلی کرک کے قتل سے متعلق سیاسی تبصرے یا اسرائیل پر تنقید کرنے والے بیانات کو “غیر دوستانہ رویہ” قرار دیا گیا۔
یہ پہلو ٹرمپ انتظامیہ کے امیگریشن اقدامات کے سب سے متنازع حصوں میں شمار ہوتا ہے۔
طلبا اور گرین کارڈ ہولڈرز پر اثرات
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، امریکی حکومت نے صرف عمومی ویزا ہولڈرز ہی نہیں بلکہ اسٹوڈنٹ ویزا رکھنے والوں کے خلاف بھی سخت اقدامات کیے۔
اگست میں محکمہ خارجہ نے تصدیق کی کہ 6 ہزار سے زائد طلبا کے ویزے قوانین کی خلاف ورزی یا قیام کی مدت سے زیادہ رہنے پر منسوخ کیے گئے۔
مزید یہ کہ، کچھ کیسز میں طلبا پر دہشت گردی کی حمایت یا سیاسی شدت پسندی کے الزامات بھی لگائے گئے۔
یہ عمل امریکہ میں آزادیِ اظہار کے حوالے سے نئی بحث کا باعث بنا۔
امیگریشن پالیسی کا سخت رخ
ٹرمپ انتظامیہ کے آغاز سے ہی امیگریشن پالیسی کو سخت بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔
ان اقدامات میں شامل ہیں:
- امیگریشن درخواستوں کی سخت جانچ پڑتال
- مسلمان ممالک پر سفری پابندیاں
- DACA پروگرام کو محدود کرنے کی کوششیں
- اور غیر ملکی طلبا کے لیے نئے ویزا قوانین
یہ سب کچھ ٹرمپ انتظامیہ کے امیگریشن اقدامات کے تسلسل کا حصہ تھا، جس کا مقصد امریکہ میں داخل ہونے والوں کی نگرانی سخت کرنا بتایا گیا۔
مارکو روبیو کا بیان
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے مئی میں کہا تھا کہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں ویزے اس لیے منسوخ کیے گئے کیونکہ

“متعلقہ افراد ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھے جو امریکی خارجہ پالیسی کے خلاف سمجھی جاتی ہیں۔”
یہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن پالیسی کو صرف سکیورٹی کے تناظر میں نہیں بلکہ سیاسی مطابقت کے اصول پر بھی پرکھا۔
فلسطینی حامیوں کو نشانہ بنانا
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ فلسطینیوں کی حمایت یا اسرائیل پر تنقید کرنے والے افراد کو “غیر دوستانہ” تصور کرتے ہوئے ان کے ویزے منسوخ کیے گئے۔
بعض صورتوں میں ان طلبا یا گرین کارڈ ہولڈرز کو امریکہ سے ملک بدر بھی کیا گیا۔
انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق یہ عمل اظہارِ رائے کی آزادی کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے اور امیگریشن پالیسیوں کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے مترادف ہے۔
بین الاقوامی ردعمل
عالمی سطح پر ٹرمپ انتظامیہ کے امیگریشن اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اور ہارورڈ لا اسکول کے ماہرین نے اس پالیسی کو
“تضادِ آزادی”
قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اپنی ہی آئینی اقدار سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کا مقصد امیگریشن کنٹرول کے ذریعے امریکی ووٹر بیس کو مطمئن کرنا تھا۔
تاہم اس کے نتیجے میں ہزاروں غیر ملکی، خصوصاً طلبا اور پروفیشنلز، امریکہ سے بدظن ہوئے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے امیگریشن اقدامات نے امریکہ کی “لینڈ آف اپرچیونٹی” کی ساکھ کو متاثر کیا اور
دنیا بھر میں امیگریشن کے نظام پر عدم اعتماد بڑھایا
ٹرمپ کے حکم پر امریکا نے ایٹمی تجربات کا آغاز کردیا — دنیا بھر میں تشویش
آخرکار، ٹرمپ انتظامیہ کے امیگریشن اقدامات امریکہ کی تاریخ میں ایک سخت موڑ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
یہ پالیسیاں سکیورٹی، سیاست، اور آزادیِ اظہار کے درمیان ایک نازک توازن کی مثال بن گئیں۔
80 ہزار ویزوں کی منسوخی نہ صرف ایک عددی حقیقت ہے بلکہ ایک ایسے دور کی علامت ہے جہاں امیگریشن پالیسیز سیاسی نظریات کی بنیاد پر تبدیل ہوتی رہیں۔










Comments 1