اگلے سال ٹرمپ کا دورہ چین کا اعلان، رواں ماہ چین کے ساتھ تجارتی معاہدے کی امید، امریکا، چین اور آسٹریلیا کے درمیان نئی صف بندی
واشنگٹن (رائیس الاخبار) — امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے سال کے اوائل میں چین کا باضابطہ دورہ کریں گے، جہاں ان کی ملاقات چینی صدر شی جن پنگ سے متوقع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رواں ماہ کے آخر میں جنوبی کوریا میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک اہم تجارتی معاہدے پر دستخط ہونے کا امکان ہے، جو عالمی معیشت اور سفارتی تعلقات کے نئے دور کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
مجھے چین آنے کی دعوت دی گئی ہے، اور میں اگلے سال کے اوائل میں کسی وقت یہ دورہ کروں گا۔ ہم نے اس کے لیے ایک ابتدائی منصوبہ ترتیب دے دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ پُرامید ہیں کہ چین کے ساتھ ایک منصفانہ تجارتی معاہدہ طے پا جائے گا جو دونوں ممالک کے مفاد میں ہوگا۔
چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوشش
ٹرمپ کا دورہ چین کا اعلان کو واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلقات میں بہتری کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات گزشتہ کئی برسوں سے تجارتی تنازعات، ٹیکنالوجی کی دوڑ، اور تائیوان کے مسئلے کی وجہ سے کشیدہ رہے ہیں۔
بین الاقوامی مبصرین کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کی یہ کوشش بیجنگ کے ساتھ اعتماد سازی کا ایک نیا مرحلہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس موقع پر امریکی صدر نے کہا:
“میرے خیال میں ہمارا چین کے ساتھ معاملہ ٹھیک رہے گا، چین یہ نہیں چاہتا کہ کوئی نیا بحران پیدا ہو۔ ہم ایک مضبوط اور متوازن تجارتی معاہدہ کریں گے، جس سے دونوں فریق خوش ہوں گے۔”
آسٹریلیا کے ساتھ دفاعی تعلقات میں تیزی
ٹرمپ نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت آسٹریلیا کو ایٹمی توانائی سے چلنے والی آبدوزوں کی فراہمی کے عمل کو تیز کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ منصوبہ انڈو پیسفک خطے میں دفاعی توازن برقرار رکھنے کے لیے امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان قائم AUKUS معاہدے کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا:
“آسٹریلیا ہمارا دیرینہ اتحادی ہے۔ ہم خطے میں امن اور استحکام کے لیے مشترکہ اقدامات جاری رکھیں گے۔”
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چین نے AUKUS معاہدے کو علاقائی استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا ہے، اور خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں اسلحہ کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔
امریکی فوجی طاقت پر ٹرمپ کا فخر
صدر ٹرمپ نے اپنی گفتگو میں امریکی فوج کی طاقت، جدید ٹیکنالوجی اور دفاعی صلاحیت پر فخر کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا:
“ہمارے پاس ہر چیز کا بہترین ورژن ہے — چاہے وہ میزائل ہوں، فضائی نظام ہو یا آبدوزیں۔ کوئی ہماری طاقت کو چیلنج نہیں کر سکتا۔”
انہوں نے کہا کہ ان کی انتظامیہ کا مقصد طاقت کے ذریعے امن (Peace through strength) کے اصول پر عمل کرنا ہے، تاکہ کسی بھی ممکنہ تصادم سے بچا جا سکے۔
تائیوان پر سوال — ٹرمپ کا محتاط رویہ
ایک صحافی نے جب صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ کیا امریکا بیجنگ کے دباؤ میں آ کر تائیوان کی آزادی کی حمایت سے پیچھے ہٹنے پر غور کر رہا ہے، تو انہوں نے اس سوال کا براہِ راست جواب دینے سے گریز کیا۔

انہوں نے مختصراً کہا:
“ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، اور ہر قدم قومی مفاد کو سامنے رکھ کر اٹھایا جائے گا۔”
ٹرمپ کے اس بیان نے واشنگٹن کے سفارتی حلقوں میں قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے کہ آیا امریکا آنے والے مہینوں میں تائیوان پالیسی میں کسی حد تک لچک دکھائے گا یا نہیں۔
عالمی سطح پر ردِ عمل
چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ نےٹرمپ کا دورہ چین کا اعلان کو سفارتی پیش رفت کے طور پر پیش کیا ہے، تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کوئی بھی معاہدہ باہمی احترام اور مساوات کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
دوسری جانب، جاپان اور جنوبی کوریا کے حکام نے ٹرمپ کا دورہ چین کا اعلان کو خطے میں کشیدگی کم کرنے کا ایک مثبت اشارہ قرار دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر ٹرمپ اور شی جن پنگ کے درمیان کوئی بڑا تجارتی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو اس کے اثرات عالمی مارکیٹوں، خاص طور پر توانائی، ٹیکنالوجی، اور زراعت کے شعبوں پر نمایاں ہوں گے۔
ماہرین کی رائے: “ٹرمپ کا دورہ ایک سفارتی قلابازی”
امریکی خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے ٹرمپ کا دورہ چین کا اعلان 2025 کے امریکی انتخابی ماحول سے بھی جڑا ہوا ہو سکتا ہے۔
کئی مبصرین کے مطابق، وہ چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر خود کو ایک عالمی ثالث کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر جوناتھن مارکس، جو کہ واشنگٹن کے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل پالیسی کے محقق ہیں، کہتے ہیں:
“یہ قدم داخلی سیاست کے تناظر میں بھی اہم ہے۔ ٹرمپ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت عالمی سطح پر تناؤ کو کم کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔”
ٹرمپ کا دورہ چین کا اعلان (trump visit china)نے ایک بار پھر بین الاقوامی تعلقات کے افق پر امریکا-چین توازنِ طاقت کی بحث کو زندہ کر دیا ہے۔
جہاں ایک طرف امریکا اپنے اتحادیوں کے ذریعے ایشیا میں اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے، وہیں دوسری جانب چین بھی اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات کو وسعت دے رہا ہے۔
اگر جنوبی کوریا میں رواں ماہ کے آخر میں ہونے والا ممکنہ تجارتی معاہدہ طے پا جاتا ہے، تو یہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان نئے اعتماد کے دور کی شروعات ثابت ہو سکتا ہے۔
Trump will VISIT CHINA ‘some time fairly early next year’
Amid trade talks and tariff threats: ‘I think we’re going to have a very good relationship with China’ https://t.co/XOiwmXOBZt pic.twitter.com/80O2mATdTm
— RT (@RT_com) October 20, 2025
Comments 1