گزشتہ روز ایک اہم مشترکہ پریس کانفرنس میں رجب طیب اردوان نے فریڈرک مرز کو ترک صدر کی اسرائیل کی حمایت پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ اردوان نے سوال اٹھایا کہ کیا جرمنی کو نظر نہیں آتا کہ غزہ پر مسلسل بمباری ہو رہی ہے؟ اور آیا اسے نسل کشی نظر نہیں آتی؟ اس بیان نے ترک-جرمن تعلقات میں ایک اور پیچیدگی پیدا کر دی ہے۔
منظرِ سیاسی
یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا جب ترکی اور جرمنی کے تعلقات پہلے ہی متعدد محاذوں پر کشیدہ ہیں، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل-حماس کے تنازعے کے پسِ منظر میں۔ ترک صدر نے جرمن چانسلر کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہنا شروع کیا:
“کیا جرمنی کو نظر نہیں آتا کہ اسرائیل نے غزہ پر کل پھر بم برسائے؟ غزہ میں نسل کشی نہیں نظر آتی؟”
اس جملے نے ترک صدر کی اسرائیل کی حمایت پر تنقید کو موضوعِ اول بنا دیا۔
ترک صدر کا موقف
اردوان نے اس موقع پر کہا کہ ترکی اور دیگر ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ غزہ میں جاری انسانی بحران کو ختم کروایا جائے۔ انہوں نے اسرائیل پر واضح حملہ کیا کہ اس کے پاس نیوکلیئر اور دیگر ہتھیار ہیں جن کے استعمال کا خطرہ ہے۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ ترک صدر کی اسرائیل کی حمایت پر تنقید اس بات کی عکاس ہے کہ ترکی اس تنازعے میں ایک فعال کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
جرمن چانسلر کا ردعمل
دوسری جانب جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے کہا کہ جرمنی اسرائیل کے قیام کے وقت سے اس کے ساتھ ہے اور ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا: اگر حماس یرغمالی رہایت لوگوں کو بروقت آزاد کراتی، تو غیر ضروری اموات سے بچا جا سکتا تھا۔ یہ بیان ترک صدر کی اسرائیل کی حمایت پر تنقید کے پسِ منظر میں آیا ہے، جہاں جرمنی نے اپنی پالیسی واضح کی ہے کہ اس کا موقف اسرائیل کی بقا اور خود دفاع کے حق کے ساتھ ہے۔
اہم نکات اور تجزیہ
1. ترکی اور جرمنی کے مابین تعلقات
- ترک صدر کی اسرائیل کی حمایت پر تنقید نے دونوں ممالک کے مابین جاری کشیدگی کو مزید شدت دی۔
- جرمن-ترکی تعلقات میں اقتصادی، عسکری اور انسانی سطح پر کئی موچ سامنے ہیں، جن میں ایک اہم مؤقف مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی ہے۔
- جرمنی نے تاریخی اعتبار سے اسرائیل کو مضبوط حمایتی ریاست کے طور پر تسلیم کیا ہے، جبکہ ترکی نے فلسطینی نقطۂ نظر کو بارہا اجاگر کیا۔
2. انسانی اور اخلاقی پہلو
اردوان نے اسرائیل کی بمباری، اسپتالوں پر حملے اور بچوں کی ہلاکتوں کا حوالہ دیا اور پوچھا کہ کیا یہ نسل کشی نہیں؟ ترکی کی اس مہم کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسرائیل کی کارروائیوں کو بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔
دوسری طرف، جرمن چانسلر نے اس نقطۂ نظر پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کا حقِ خود دفاع تسلیم کیا جاتا ہے، اور حماس کی یرغمالی کارروائیوں کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ ان کی وجہ سے صورتحال مزید بگڑی ہے۔
3. بین الاقوامی اثرات
- اس قسم کی گفتگو نے یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور نیٹو اتحادیوں کے مابین پیچیدگیاں بڑھا دی ہیں۔
- ترکی کی اسرائیل کی حمایت پر تنقید نے مسلم دنیا میں اس کے مقام کو تقویت دی ہے، جبکہ جرمنی کو یہ پیغام ملا ہے کہ اسے انسانی بحرانوں پر واضح موقف لینا پڑے گا یا روابط متاثر ہو سکتے ہیں۔
- یہ واقعہ مستقبل میں ترکی-جرمنی تعلقات، تجارتی اور عسکری تعاون، اور یورپ-ترکی پالیسی پر اثر ڈال سکتا ہے۔
شام کو تقسیم ہونے دیا نہ ہونے دیں گے، ترک صدر کی اسرائیلی حملوں کی مذمت
آخر میں، ترک صدر کی اسرائیل کی حمایت پر تنقید نے نہ صرف ترکی اور جرمنی کے تعلقات میں نئے سوالات کھڑے کیے ہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے جنگ زدہ منظرنامے کے حوالے سے ایک اخلاقی اور سیاسی بحث کو بھی جنم دیا ہے۔ اس واقعے نے یہ واضح کیا ہے کہ عالمی طاقتیں نہ صرف عسکری یا معاشی بنیادوں پر بول رہی ہیں، بلکہ انسانی حقوق اور ریکارڈ پر مبنی پالیسی پر بھی غور کر رہی ہیں۔
ترکی نے واضح طور پر مؤقف اختیار کیا ہے کہ اسرائیل کی کارروائیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اور جرمنی نے اپنے دیرینہ سیاستدانانہ وابستگی کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے دفاع کا حق تسلیم کیا جائے گا۔
اب سوال یہ ہے: کیا اس بحرانی دور میں ترکی اور جرمنی درمیان بات چیت مزید کشیدگی کا سبب بنے گی یا پھر ایک نیا مشترکہ راستہ تلاش کیا جائے گا؟










Comments 1