ڈونلڈ ٹرمپ اور شہباز شریف ملاقات — پاک امریکہ تعلقات اور عالمی امن کی نئی جہت
نیویارک — اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس کے موقع پر بین الاقوامی سطح پر ایک غیر متوقع لیکن خوشگوار لمحہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف کے درمیان ایک غیر رسمی اور خوشگوار ملاقات ہوئی۔
یہ ملاقات ایک عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے اختتام پر ہوئی جہاں دونوں رہنما شریک تھے۔ ذرائع کے مطابق، اس ملاقات کے دوران ماحول نہایت دوستانہ تھا، اور دونوں رہنماؤں نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور مختصر بات چیت کی۔ اس موقع پر پاکستان کے نائب وزیرِاعظم اور وزیرِخزانہ اسحاق ڈار بھی موجود تھے، جو اس ملاقات کے اہم گواہ سمجھے جا رہے ہیں۔
غیر رسمی ملاقات سے باقاعدہ سفارت کاری کی جانب؟
ملاقات کو محض رسمی تعلقات کا اظہار نہیں بلکہ مستقبل کے ایک ممکنہ اہم سفارتی باب کی شروعات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 25 ستمبر کو وزیرِاعظم شہباز شریف اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک ون آن ون ملاقات کے امکانات زیر غور ہیں۔ اگر یہ ملاقات ہوتی ہے تو توقع کی جا رہی ہے کہ اس میں عالمی اور علاقائی معاملات پر تفصیلی گفت و شنید ہو گی۔
ایسی ملاقاتیں صرف دو ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ اس کا اثر عالمی سیاست پر بھی پڑتا ہے، خاص طور پر جب ایک طرف دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ ہو، اور دوسری طرف خطے کا اہم ملک پاکستان۔
اقوام متحدہ میں وزیرِاعظم کا مؤقف: امن و استحکام پر زور
وزیرِاعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک نجی پاکستانی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ عالمی امن کے قیام کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہے ہیں اور ان کے حالیہ خطاب میں کئی اہم نکات شامل تھے، جن میں عالمی تناؤ کم کرنے، اقتصادی شراکت داری کو فروغ دینے اور خطے میں قیام امن جیسے امور شامل تھے۔
وزیرِاعظم نے خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ صدر ٹرمپ نے پاک بھارت کشیدگی کم کرنے میں بھی اہم اور مثبت کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ عالمی برادری اس مثبت پیش رفت کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو گی۔
پاکستان کا موقف: امن، تعاون اور شراکت داری
شہباز شریف نے اپنے انٹرویو میں واضح کیا کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے ساتھ مل کر تنازعات کے پائیدار حل کی تلاش میں سرگرم عمل ہے۔ ان کے بقول، "ہم ہر اس کوشش میں شراکت دار بننے کو تیار ہیں جو دنیا کو پرامن، خوشحال اور پائیدار ترقی کی جانب لے جائے۔”
پاکستان کی یہ پالیسی نہ صرف جنوبی ایشیا کے تناظر میں اہم ہے بلکہ بین الاقوامی برادری میں ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اس کی شناخت کو بھی مضبوط کرتی ہے۔
امریکی پالیسی میں تبدیلی کی جھلک؟
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے ساتھ حالیہ گرمجوشی اس بات کا عندیہ دے سکتی ہے کہ امریکی پالیسی میں ایک نیا زاویہ پیدا ہو رہا ہے۔ ماضی میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کئی بار اتار چڑھاؤ آ چکا ہے، تاہم حالیہ ملاقاتیں اور بیانات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ دونوں ممالک ایک بار پھر قریبی تعاون کی جانب بڑھنے کے خواہاں ہیں۔
ایسے وقت میں جب دنیا کو روس-یوکرین تنازع، مشرق وسطیٰ کی کشیدگی، اور ایشیا میں طاقت کی نئی صف بندی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان اور امریکہ کا ایک دوسرے کے قریب آنا بین الاقوامی سفارت کاری کے لیے اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔
تجزیہ: محض ملاقات یا پالیسی کا نیا رخ؟
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر رسمی ملاقاتیں اکثر اوقات رسمی ملاقاتوں کے لیے راہ ہموار کرتی ہیں۔ اس ملاقات کو صرف ایک پروٹوکول کا حصہ نہیں سمجھا جا رہا بلکہ اس کے پس منظر میں کئی اہم سفارتی پہلو موجود ہیں۔
پاکستان کی اقتصادی صورتحال، افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسی، چین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے تعلقات اور بھارت کے ساتھ کشیدگی — یہ تمام ایسے موضوعات ہیں جو ممکنہ ون آن ون ملاقات میں زیر بحث آ سکتے ہیں۔
ایک نئی شروعات کا آغاز؟
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیرِاعظم شہباز شریف کی حالیہ غیر رسمی ملاقات بظاہر مختصر تھی، مگر اس کے اثرات طویل المدتی ہو سکتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں بعض اوقات ایک مصافحہ، ایک مسکراہٹ یا ایک جملہ بھی نئی تاریخ رقم کر سکتا ہے۔
اگر 25 ستمبر کو متوقع ون آن ون ملاقات ہوتی ہے، تو یہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی بحالی، اقتصادی تعاون اور علاقائی امن کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ عالمی برادری بھی اس پیش رفت کو غور سے دیکھ رہی ہے کہ آیا یہ محض سفارتی خیر سگالی ہے یا پھر عالمی تعلقات میں ایک نئے باب کی شروعات۔












Comments 2