بجلی کے میٹر کی قیمت میں اضافہ، صارفین کے لیے بڑا جھٹکا
پاکستان میں بجلی کے صارفین کے لیے ایک اور بوجھ ڈال دیا گیا ہے کیونکہ بجلی کے میٹر کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جو میٹر پہلے 5 ہزار روپے میں دستیاب تھا، اب وہی بجلی کے میٹر کی قیمت 25 ہزار روپے تک جا پہنچی ہے۔ اس اضافے نے گھریلو اور کمرشل صارفین دونوں کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
لیسکو کا نیا فیصلہ
تفصیلات کے مطابق لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) نے ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے تحت اب ادارہ خود میٹر فراہم نہیں کرے گا بلکہ صرف این او سی جاری کرے گا۔ اس کے بعد صارفین کو پرائیویٹ کمپنیوں سے میٹر خریدنا ہوگا۔ اس فیصلے کے بعد بجلی کے میٹر کی قیمت میں پانچ گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
پہلے جہاں نیا میٹر صرف 5 ہزار روپے میں دستیاب تھا، اب صارف کو اسی میٹر کے لیے 25 ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے۔ لیسکو کے مطابق یہ فیصلہ بجٹ کی کمی کے باعث کیا گیا ہے کیونکہ موجودہ مالی سال کا بجٹ مکمل طور پر خرچ ہو چکا ہے۔
پرائیویٹ کمپنیوں کی اجارہ داری
ذرائع کے مطابق لیسکو نے پرائیویٹ کمپنیوں کو اے ایم آئی (AMI) میٹر تیار کرنے اور فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ ان کمپنیوں کو کروڑوں روپے کے منافع کی توقع ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے عام صارفین پر مالی دباؤ میں کئی گنا اضافہ ہوگا، کیونکہ بجلی کے میٹر کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔
صارفین کے خدشات
گھریلو صارفین نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس فیصلے پر نظرثانی کرے۔ بہت سے شہریوں کا کہنا ہے کہ بجلی کے میٹر کی قیمت میں اتنا بڑا اضافہ ناانصافی ہے، کیونکہ پہلے ہی بجلی کے بل عام شہریوں کے بس سے باہر ہو چکے ہیں۔
ماہرین کی رائے
توانائی ماہرین کے مطابق بجلی کے میٹر کی قیمت میں اس قدر اضافہ بجلی کے نظام میں شفافیت کے بجائے افراتفری پیدا کرے گا۔ جب قیمت بڑھتی ہے تو جعلی یا ناقص میٹر مارکیٹ میں آنے لگتے ہیں، جو بعد میں صارف کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس معاملے میں باقاعدہ ریگولیشنز متعارف کرانے چاہئیں تاکہ صارفین کا استحصال نہ ہو۔
مالی بوجھ میں اضافہ
اگر ایک عام شہری کو نیا کنکشن لینا ہے تو اسے پہلے این او سی حاصل کرنا ہوگا اور پھر 25 ہزار روپے کا میٹر خریدنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ انسٹالیشن کے اخراجات الگ ہوں گے۔ اس طرح بجلی کے میٹر کی قیمت کا مجموعی بوجھ صارفین پر 30 ہزار روپے سے تجاوز کر جائے گا۔
یہ صورتحال خاص طور پر متوسط طبقے کے لیے شدید مشکل پیدا کر سکتی ہے، کیونکہ موجودہ دور میں مہنگائی پہلے ہی ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اب بجلی کے میٹر کی قیمت میں اضافہ مزید مشکلات کا باعث بنے گا۔
حکومت کی پالیسی پر سوال
حکومت کی جانب سے اب تک کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا کہ بجلی کے میٹر کی قیمت میں اضافہ کب تک برقرار رہے گا یا اس پر کسی قسم کی ریگولیشن متعارف کرائی جائے گی۔ توانائی کے شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عوامی مفاد کے پیش نظر حکومت کو فوری طور پر اس معاملے کا جائزہ لینا چاہیے۔
ممکنہ اثرات
اس فیصلے کے بعد نئے گھروں، دکانوں، فیکٹریوں یا چھوٹے کاروباروں کو شروع کرنا مزید مہنگا ہو جائے گا۔ اس طرح بجلی کے میٹر کی قیمت میں اضافہ ملک کے معاشی پہیے کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو عام شہری ہی نہیں بلکہ صنعتکار بھی متاثر ہوں گے۔
عوامی ردعمل
سوشل میڈیا پر بھی صارفین نے اس فیصلے پر سخت ردعمل دیا ہے۔ کئی لوگوں نے کہا ہے کہ پہلے بجلی کی قیمتوں نے کمر توڑ دی تھی، اب بجلی کے میٹر کی قیمت نے امید بھی ختم کر دی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو فوری طور پر لیسکو اور دیگر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے فیصلے پر مداخلت کرنی چاہیے۔
ماہرین کے مطابق ایئر کنڈیشنر میں بجلی بچانے کے طریقے
بجلی کے میٹر کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ عوام کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ جہاں پہلے بجلی کے بلوں نے زندگی مشکل بنا رکھی تھی، اب نئے کنکشن یا میٹر کی تبدیلی بھی ایک چیلنج بن چکی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت، نیپرا اور متعلقہ ادارے عوامی مفاد میں فوری اقدامات کریں تاکہ بجلی کے میٹر کی قیمت ایک بار پھر عام شہری کی پہنچ میں آ سکے۔










Comments 2