اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ پر اتفاق عالمی منڈی پر ممکنہ اثرات
اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ عالمی توانائی مارکیٹ کے لیے ایک اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ تازہ ترین اعلامیے کے مطابق اوپیک پلس اتحاد، جس میں سعودی عرب، روس، متحدہ عرب امارات، کویت اور دیگر اہم تیل برآمد کرنے والے ممالک شامل ہیں، نے دسمبر سے روزانہ تقریباً ایک لاکھ 37 ہزار بیرل تیل کی پیداوار بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ فیصلہ کئی ماہ کی مشاورت کے بعد سامنے آیا ہے جس کا مقصد تیل کی قیمتوں میں استحکام پیدا کرنا اور توانائی کی عالمی طلب کو پورا کرنا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب دنیا میں تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ جاری ہے اور کئی مغربی ممالک توانائی بحران سے دوچار ہیں۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت اس وقت 90 ڈالر فی بیرل کے قریب ہے، جو حالیہ مہینوں میں سب سے زیادہ سطحوں میں شمار کی جا رہی ہے۔ اسی پس منظر میں اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ عالمی معیشت کے لیے ایک ریلیف کی حیثیت رکھتا ہے۔
اوپیک پلس کے اجلاس میں طے پایا کہ یہ اضافہ فی الوقت محدود مدت کے لیے ہوگا اور جنوری 2026 تک پیداوار کی سطح کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ اگرچہ معمولی ہے، مگر اس سے منڈی میں نفسیاتی استحکام ضرور پیدا ہوگا۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے اور قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے یہ قدم بروقت تصور کیا جا رہا ہے۔
سعودی عرب، جو کہ اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ کے فیصلے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، نے واضح کیا ہے کہ ان کا مقصد قیمتوں کو کم یا زیادہ کرنا نہیں بلکہ مارکیٹ کو متوازن رکھنا ہے۔ روس نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ تیل کی پیداوار کے اس نئے شیڈول پر عمل کرے گا تاکہ توانائی کی فراہمی میں کسی قسم کا خلل پیدا نہ ہو۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ مسلسل برقرار رہا تو آئندہ چند ماہ میں تیل کی قیمتوں میں بتدریج کمی ممکن ہے۔
دوسری جانب، امریکا اور یورپی ممالک نے بھی اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ کا خیر مقدم کیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ عالمی طلب کے مقابلے میں ناکافی ہے۔ واشنگٹن کے توانائی ماہرین کا کہنا ہے کہ سردیوں کے موسم میں ایندھن کی طلب بڑھنے کے باعث تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ممکن ہے، لہٰذا اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ اس طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔
اسی دوران عالمی معیشت کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ کے باوجود توانائی کی طلب میں تیزی برقرار رہی تو تیل کی قیمتیں دوبارہ 100 ڈالر فی بیرل کی حد عبور کر سکتی ہیں۔ اس صورت میں ترقی پذیر ممالک میں مہنگائی کا دباؤ بڑھ سکتا ہے اور درآمدی بل میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان جیسے ممالک، جو زیادہ تر تیل درآمد کرتے ہیں، کے لیے یہ صورتحال مالی دباؤ کا باعث بن سکتی ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق، اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ کا اثر عالمی مارکیٹ پر مرحلہ وار ظاہر ہوگا۔ ابتدائی طور پر سرمایہ کار محتاط رویہ اختیار کریں گے، تاہم اگر پیداوار میں استحکام برقرار رہا تو مارکیٹ میں سپلائی بہتر ہوگی اور قیمتوں میں بتدریج کمی کا امکان پیدا ہو جائے گا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ توانائی کی مارکیٹ میں توازن لانے کے لیے ایک وقتی مگر مثبت قدم ہے۔
دو دہائیوں بعد پاکستانی سمندر سے تیل و گیس کی دریافت، سرمایہ کاری 1 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں اور متبادل توانائی کے ذرائع کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تاہم فی الحال تیل ہی عالمی توانائی کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ طویل مدتی بنیادوں پر برقرار رہتا ہے تو عالمی منڈی میں قیمتوں کا دباؤ کم ہو سکتا ہے اور صارفین کو ریلیف مل سکتا ہے۔
آخر میں، ماہرین کا کہنا ہے کہ اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافہ نہ صرف معاشی استحکام کے لیے اہم ہے بلکہ یہ عالمی توانائی کے توازن کو بھی متاثر کرے گا۔ آئندہ چند ہفتے اس حوالے سے فیصلہ کن ہوں گے کہ آیا یہ اقدام عالمی قیمتوں کو نیچے لانے میں کتنا کامیاب ہوتا ہے۔









