شمالی کوریا کے میزائل تجربات کے بعد اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس، عالمی سطح پر کشیدگی میں اضافہ
نیو یارک (رئیس الاخبار) — شمالی کوریا کی جانب سے جدید ترین بیلسٹک میزائلوں کے مسلسل تجربات نے عالمی برادری میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کے روز ہنگامی اجلاس طلب کیا، جس میں امریکا، جاپان، جنوبی کوریا، برطانیہ اور فرانس سمیت متعدد ممالک نے شمالی کوریا کے اقدامات کو “بین الاقوامی امن کے لیے سنگین خطرہ” قرار دیا۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں شمالی کوریا کی جانب سے حالیہ میزائل تجربات، ان کے ممکنہ اثرات، اور خطے میں طاقت کے توازن پر پڑنے والے اثرات پر تفصیلی غور کیا گیا۔ اجلاس کے دوران اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان نے کہا کہ “شمالی کوریا کی جانب سے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) کا تجربہ عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔”
ترجمان کے مطابق، اقوام متحدہ کے چارٹر اور 2006 سے منظور شدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت شمالی کوریا کو ایسے تجربات کی اجازت نہیں، کیونکہ یہ ایٹمی پروگرام کے پھیلاؤ اور خطے میں عسکری کشیدگی بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔
شمالی کوریا کی جانب سے بیلسٹک میزائل کا تجربہ
شمالی کوریا کے سرکاری خبر رساں ادارے KCNA نے تصدیق کی کہ ملک نے ہفتے کی شب طویل فاصلے تک مار کرنے والے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ہواسونگ-18 کا تجربہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق میزائل 5,000 کلومیٹر کی بلندی پر گیا اور تقریباً 73 منٹ تک فضا میں رہنے کے بعد جاپان کے ساحل کے قریب سمندر میں جا گرا۔
شمالی کوریا کے مطابق یہ تجربہ دفاعی نوعیت کا تھا اور اس کا مقصد “امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ممکنہ جارحیت” کا مقابلہ کرنا ہے۔ پیونگ یانگ نے اپنے بیان میں کہا کہ “ہماری دفاعی خودمختاری کسی بین الاقوامی دباؤ یا قرارداد کا پابند نہیں، اور ہم اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ہر اقدام اٹھانے کا حق رکھتے ہیں۔”
جنوبی کوریا اور جاپان کا شدید ردعمل
دوسری جانب، جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے شمالی کوریا کے میزائل تجربات کے اقدام کو “انتہائی اشتعال انگیز اور غیر ذمہ دارانہ” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ملک امریکا اور جاپان کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے اور اگر شمالی کوریا نے اپنی اشتعال انگیزی جاری رکھی تو اس کے “نتائج انتہائی سنگین ہوں گے۔”
جاپان کے وزیراعظم فومیو کیشیدا نے بھی شمالی کوریا کے میزائل تجربات کو “قابلِ مذمت” قرار دیا اور کہا کہ ان کی حکومت اقوام متحدہ میں مزید سخت پابندیوں کی سفارش کرے گی۔
جاپانی وزارتِ دفاع کے مطابق میزائل کے ٹکڑے جاپان کے خصوصی اقتصادی زون (EEZ) سے چند کلومیٹر دور گرے، تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
امریکا کا ردعمل اور ممکنہ اقدامات
امریکی محکمۂ خارجہ نے ایک سخت بیان میں کہا کہشمالی کوریا کے میزائل تجربات کو عالمی سلامتی کے لیے براہِ راست چیلنج ہیں۔ واشنگٹن نے پیونگ یانگ پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کرنے اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر اس کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا:
“شمالی کوریا کے میزائل تجربات نہ صرف ایشیا بلکہ پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ہم اپنے اتحادیوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔”
امریکی حکام کے مطابق، جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں میں اضافہ کیا جائے گا تاکہ شمالی کوریا کے کسی بھی ممکنہ حملے کا بروقت جواب دیا جا سکے۔
چین اور روس کا موقف
چین اور روس، جو سلامتی کونسل کے مستقل ارکان ہیں، نے شمالی کوریا پر پابندیوں کے بجائے “سفارتی راستہ” اپنانے کی تجویز دی۔ چینی مندوب نے کہا کہ “پابندیاں مسئلے کا حل نہیں، بلکہ خطے میں مزید بے چینی پیدا کریں گی۔”
روس نے بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ “امریکا نے خطے میں فوجی اتحاد بنا کر کشیدگی میں اضافہ کیا ہے، جس سے شمالی کوریا کو دفاعی اقدامات پر مجبور ہونا پڑا۔”
خطے میں بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیاں
ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعات کے بعد مشرقی ایشیا میں طاقت کا توازن مزید غیر مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔ جنوبی کوریا نے رواں ہفتے امریکی ساختہ F-35 لڑاکا طیاروں کی نئی کھیپ حاصل کی ہے، جبکہ جاپان اپنی میزائل دفاعی صلاحیتوں کو جدید بنانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
اس کے برعکس شمالی کوریا مسلسل اپنے ایٹمی اور میزائل پروگرام کو وسعت دے رہا ہے۔ 2022 سے اب تک پیونگ یانگ تقریباً 120 سے زائد میزائل تجربات کر چکا ہے — جو کسی بھی سال میں اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی تشویش
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 2006 سے اب تک شمالی کوریا پر 9 مرتبہ اقتصادی اور عسکری پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان میں ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر پابندی، ایندھن کی برآمدات میں کمی، اور شمالی کوریائی کمپنیوں کے اثاثے منجمد کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق، پابندیاں شمالی کوریا کے رویے میں تبدیلی نہیں لا سکیں، بلکہ اس نے اپنی معیشت کو چین اور روس کی مدد سے کسی حد تک مستحکم کر لیا ہے۔
کیا صورتحال کسی بڑے تصادم کی جانب جا رہی ہے؟
عالمی امور کے ماہرین کے مطابق شمالی کوریا کا یہ تازہ اقدام صرف ایک “فوجی مظاہرہ” نہیں بلکہ امریکا اور جنوبی کوریا کے لیے ایک سیاسی پیغام ہے۔ بین الاقوامی تجزیہ کار ڈاکٹر جوناتھن مارکس کے مطابق:
“شمالی کوریا کے میزائل تجربات اپنی ایٹمی صلاحیت دکھانے اور دنیا کو یہ باور کرانے کا ذریعہ ہیں کہ وہ کسی بھی دباؤ کے آگے جھکنے والا نہیں۔”
دوسری جانب، امریکی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر سفارتی راستہ فوری طور پر اختیار نہ کیا گیا تو خطے میں نیا ہتھیاروں کا دوڑ (arms race) شروع ہو سکتی ہے، جو عالمی امن کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔
شمالی کوریا کے میزائل تجربات (north korea missile test)نے نہ صرف ایشیا بلکہ پوری دنیا میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے یہ واضح ہے کہ عالمی طاقتیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہیں۔ تاہم، اگر سفارت کاری کے ذریعے کوئی مستقل حل نہ نکالا گیا تو آنے والے مہینوں میں کشیدگی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
North Korea launched an unidentified ballistic missile toward the east on Wednesday morning, South Korea’s Joint Chiefs of Staff said, in what would mark Pyongyang’s first such test since May if confirmed.
Developing story: https://t.co/XHQU8xFKk1 pic.twitter.com/FFupRUmLsC
— NK NEWS (@nknewsorg) October 21, 2025