وفاقی ملازمین کے لیے نئی پنشن اسکیم کا نفاذ: تنخواہ سے 10 فیصد کٹوتی، حکومت 12 فیصد دے گی ، وزارت خزانہ نے نئے شراکتی قواعد نافذ کر دیے
اسلام آباد — وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کے پنشن نظام میں ایک بڑی اصلاح کرتے ہوئے نئی ”کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ اسکیم“ کے نفاذ کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے، جس کے تحت تمام نئے وفاقی ملازمین کو اپنی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد حصہ پنشن فنڈ میں جمع کرانا ہوگا، جبکہ وفاقی حکومت 12 فیصد حصہ بطور آجر فراہم کرے گی۔
ملازمین کے لیے نئی پنشن اسکیم کا نظام پرانے پنشن ڈھانچے کی جگہ لے گا، جس کے تحت ریٹائرڈ ملازمین کو براہِ راست قومی خزانے سے تاحیات پنشن ملتی تھی۔ نئی اسکیم کے نفاذ سے پنشن کے بڑھتے ہوئے بوجھ میں کمی اور مالیاتی پائیداری لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
وزارتِ خزانہ نے اس ضمن میں فیڈرل گورنمنٹ ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن (ایف جی ڈی سی) پنشن فنڈ اسکیم رولز 2024 جاری کر دیے ہیں، جو پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت نافذ کیے گئے ہیں۔ ملازمین کے لیے نئی پنشن اسکیم کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے دائرہ کار میں لایا گیا ہے تاکہ یہ والینٹری پنشن سسٹم رولز 2005 اور نان بینکنگ فنانس کمپنیز ریگولیشنز 2008 کے مطابق ریگولیٹ ہو۔
نئے ملازمین کے لیے اطلاق
ملازمین کے لیے نئی پنشن اسکیم کا اطلاق اُن وفاقی ملازمین پر ہوگا جو یکم جولائی 2024 یا اس کے بعد بھرتی ہوئے ہیں۔ اس میں وفاقی وزارتوں، محکموں، خودمختار اداروں اور سول ڈیفنس کے ملازمین شامل ہوں گے۔ مسلح افواج کے اہلکاروں پر یہ نظام یکم جولائی 2025 سے نافذ ہوگا۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق، پہلے مرحلے میں یہ اسکیم سول ملازمین کے لیے متعارف کرائی جا رہی ہے، جبکہ افواجِ پاکستان کے لیے اس کا نفاذ آئندہ مالی سال سے متوقع ہے۔
حکومت اور ملازم کا حصہ
ملازمین کے لیے نئی پنشن اسکیم کے تحت اپنی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد حصہ پنشن فنڈ میں جمع کرائیں گے، جبکہ وفاقی حکومت ان کی پنشن کے قابلِ حساب تنخواہ کا 12 فیصد حصہ ادا کرے گی۔ اس طرح کل حصہ 22 فیصد بنتا ہے۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق، حکومت کا حصہ اکاؤنٹنٹ جنرل (AGPR) کے ذریعے جمع کرایا جائے گا، جو ریکارڈ رکھنے اور منتقلی کے نظام کی نگرانی کرے گا۔
بجٹ میں فنڈز کی فراہمی
حکومت نے مالی سال 25-2024 کے بجٹ میں 10 ارب روپے اور آئندہ مالی سال 26-2025 میں مزید 4 ارب 30 کروڑ روپے ملازمین کے لیے نئی پنشن اسکیم کے نفاذ کے لیے مختص کیے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ یہ نظام ورلڈ بینک کی تکنیکی مشاورت اور مالیاتی نظم و ضبط کے معیار کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔
پنشن کا بڑھتا بوجھ
اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت کا پنشن خرچ رواں مالی سال 25-2024 میں 10 کھرب 5 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، جو پچھلے سال کے 821 ارب روپے سے تقریباً 29 فیصد زیادہ ہے۔
دوسری جانب مسلح افواج کی پنشن ادائیگیاں 26-2025 میں 742 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے، جو 2023 میں 563 ارب روپے تھیں — یعنی 32 فیصد اضافہ۔
سول ملازمین کے لیے موجودہ مالی سال میں 243 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے 228 ارب روپے سے 6.6 فیصد زیادہ ہیں۔
پنشن فنڈ کی نگرانی اور انتظام
نئے قواعد کے تحت صرف مجاز پنشن فنڈ منیجرز کو اس اسکیم کے فنڈز چلانے کی اجازت ہوگی۔ یہ فنڈ منیجرز وزارتِ خزانہ کے ساتھ باضابطہ معاہدے کریں گے اور انہیں نان بینکنگ فنانس کمپنی (NBFC) کے تحت رجسٹر ہونا لازمی ہوگا۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق ایک خصوصی پینشن فنڈ اتھارٹی قائم کی جائے گی جو اس نظام کے نفاذ، نگرانی اور شفافیت کی ذمہ دار ہوگی۔ باضابطہ اتھارٹی کے قیام تک یہ اختیارات وزارتِ خزانہ کے ایک خصوصی سیل کے پاس ہوں گے۔
سندھ سرکاری ملازمین پنشن نظام بحال، نئی اسکیم ختم
ملازمین کے اکاؤنٹس اور شفافیت
ہر ملازم کے لیے علیحدہ پنشن اکاؤنٹ بنایا جائے گا، جس میں ملازم اور حکومت دونوں کے حصے جمع ہوں گے۔ ماہانہ تنخواہ کی سلپ میں تفصیلات درج ہوں گی جن میں ملازم کا حصہ، حکومتی حصہ، اور کل جمع شدہ رقم واضح ہوگی۔
اکاؤنٹنٹ جنرل (AGPR) تنخواہ کی ادائیگی سے پہلے اس بات کی تصدیق کرے گا کہ ملازم اور آجر دونوں کے حصے مقررہ فنڈ میں جمع ہو چکے ہیں۔
نکالنے کی شرائط
ملازمین کے لیے نئی پنشن اسکیم کے تحت ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنی پنشن رقم نہیں نکال سکیں گے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد وہ زیادہ سے زیادہ 25 فیصد رقم یکمشت نکال سکیں گے، جبکہ باقی رقم 20 سال تک یا 80 سال کی عمر تک والنٹری پنشن سسٹم رولز 2002 کے مطابق سرمایہ کاری میں رکھی جائے گی، جو بھی پہلے پورا ہو۔
وفات یا معذوری کی صورت
وزارتِ خزانہ نے ہدایت کی ہے کہ پنشن فنڈ منیجرز اپنے تمام رجسٹرڈ ملازمین کے لیے انشورنس کور فراہم کریں تاکہ وفات یا معذوری کی صورت میں ان کے وارثوں کو مکمل تحفظ مل سکے۔
نظام کا مقصد
سرکاری حکام کے مطابق ملازمین کے لیے نئی پنشن اسکیم کا نظام حکومت کے مالی بوجھ کو کم کرنے اور پائیدار مالی نظم قائم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں پنشن کے اخراجات ترقیاتی بجٹ سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں، جس سے قومی مالیاتی نظم متاثر ہو رہا ہے۔
وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق اگر پرانا نظام برقرار رہتا تو اگلے 10 سالوں میں صرف وفاقی حکومت کی پنشن ادائیگیاں 20 کھرب روپے سے تجاوز کر جاتیں۔
بین الاقوامی معیار کے مطابق نظام
ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی سفارشات پر مبنی اس اسکیم میں پنشن کا فنڈ ملازمین کے نام سے کھولا جائے گا، جو سرمایہ کاری کے ذریعے منافع پیدا کرے گا۔ اس منافع کو ملازم کی کل جمع شدہ رقم میں شامل کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق ملازمین کو پنشن فنڈ کی ماہانہ کارکردگی رپورٹ فراہم کی جائے گی تاکہ شفافیت برقرار رہے۔
ریٹائرمنٹ اور استعفے کی صورت
ریٹائرمنٹ، برطرفی، استعفے یا قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی صورت میں ملازم کے اکاؤنٹ میں موجود رقم حکومت کے جاری کردہ قواعد کے مطابق ادا کی جائے گی۔
ماہرین کی آراء
معاشی ماہرین کے مطابق حکومت کا یہ فیصلہ ایک طویل المیعاد مالی اصلاح ہے جس سے پنشن کے ناقابلِ برداشت بوجھ پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نظام کی کامیابی کا انحصار اس کے شفاف انتظام اور فنڈ منیجمنٹ پر ہوگا۔
مستقبل کے اثرات
ذرائع کے مطابق حکومت توقع کر رہی ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں پنشن اخراجات کی شرح نمو میں نمایاں کمی آئے گی، جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمین کو سرمایہ کاری سے بہتر منافع ملنے کا امکان ہے۔
حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ موجودہ ریٹائرڈ یا پہلے سے بھرتی شدہ ملازمین اس نئے نظام سے متاثر نہیں ہوں گے۔
وزارتِ خزانہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ “ نئی پنشن اسکیم موجودہ ملازمین کے لیے نہیں بلکہ مستقبل میں شامل ہونے والے افراد کے لیے ہے تاکہ پنشن کے بوجھ کو مستحکم انداز میں منظم کیا جا سکے۔
وفاقی حکومت کا نیا کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ اسکیم (new pension law)پاکستان کے مالیاتی نظام میں ایک تاریخی اصلاح کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ ملازمین کے لیے نئی پنشن اسکیم ایک طرف جہاں قومی خزانے پر دباؤ کم کرے گا، وہیں دوسری جانب مستقبل کے سرکاری ملازمین کے لیے پنشن کا شفاف اور سرمایہ کاری پر مبنی ماڈل متعارف کرائے گا۔










